پشاور میں گرم بابا کی جعلی قبر ، جس کی لاش کبھی آسمان پر اٹھائی گئی کبھی تیس گز نیچے چلی گئی

تحریر:شکور خان ایڈووکیٹ،پشاور۔ میں گرم بابا کی جعلی قبر ، جس کی لاش کبھی آسمان پر اٹھائی گئی کبھی تیس گز نیچے چلی گئی، معاملہ گورنر تک پہنچا تو سب بے نقاب ہو گئے ۔

 افتخار حسین شاہ سرحد کے گورنر تھے، ان کے دور میں جی۔ٹی روڈ پشاور کی کشادگی کا کام شروع ہوا۔  زد میں آنے والی عمارتیں زور و شور سے گرائی جارہی تھیں۔ چند عمارتوں کے مالکان نے عدالت سے رجوع کیا اور سٹے آرڈر لےآئے، سٹے آرڈر کی مصدقہ کاپی موقع پر حکام کو پیش کی گئی، دوسری طرف عمارتیں گرانے کا کام جاری تھا، کام کی نگرانی کرنے والے آفیسر نے سٹے آرڈر کی کاپی واپس بلڈنگ مالکان کو تھماتے ہوئے کہا: آپ کا درد سمجھتا ہوں لیکن میں بلڈنگ نہیں گرا رہا۔۔وہ۔۔۔دیکھو۔۔مشین گرا رہی ہے، ذرا جا کے مشین سے بات بھی کرلے اور لگے ہاتھوں یہ آرڈر بھی دکھا دینا۔

ہشتنگری چوک اور قلعہ بالاحصار کے نکڑ پر دو قدیم زیارتیں مرجع خلائق تھیں، جہاں نذرانے پیش کرنے اور منتیں ماننے والے مرد، عورتوں کا دن رات ہجوم رہتا تھا، زن و مرد پشاور شہر کے علاوہ دور دراز کے دیہات سے آتے، اپنی جمع پونجی و دیگر اشیا مزار پر نچھاور کرتے، یوں اپنے تئیں مزار سے فیض حاصل کر کے خوش و خرم گھروں کو لوٹتے۔

ہشتنگری والی زیارت میں دفن اللہ کے ولی کا نام اب یاد نہیں رہا البتہ قلعہ بالاحصار والے بزرگ گرم بابا کے نام سے مشہور تھے، بقول  مریدوں کے  ۔۔  وہا ں منت ماننے سے بے اولاد خواتین کی گودیں ہری ہو جایا کرتی تھیں۔

گرم بابا کا مقام راستے میں پڑتا تھا میں اور دوسرے ساتھی اخبار کے دفتر سے واپسی پر چند لمحے یہاں رک کر آنے جانے والوں اور والیوں کا نظارہ کیا کرتے تھے، کبھی کبھار کسی عقیدت مند سے اندر کا حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے، دلچسپ بات سامنے آئی تو چھوٹی سی خبر بھی بنا لیتے تھے۔

بدقسمتی سے دونوں زیارتیں سڑک کشادگی کی زد میں آگئیں، مسمار کرنے کے لیے ٹیم آگے بڑھی تو عقیدت مندوں کا ہجوم حکام کے سامنے آ کھڑا ہوا، بپھرے ہوئے پرجوش مرید مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگئے، طویل مذاکرات کے نتیجے میں ہشتنگری والی زیارت مسمار کی گئی اور بزرگ کے جسد خاکی کی باقیات سرکاری خرچ پر دوسرے مقام پر دفنائی گئیں، منتقلی کے ساتھ ہی زائرین کا رخ بھی نئے مقام کی جانب مڑ گیا۔

گرم بابا کے عقیدت مند حکومت کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ گئے، وہ لاش نکال کر بابا کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اعلیٰ  حکام کی خفیہ ہدایت پر مزار کی عمارت رات کو مسمار کی گئی، علم ہوتے ہی صبح سویرے مریدین کا جم غفیر اکھٹا ہو گیا اور بزور طاقت مزدوروں کو ملبہ اٹھانے اور مرقد کھودنے سے روکے رکھا۔

لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا ہوکر حالات کشیدگی کی طرف رخ اختیار کر گئے تو گورنر نے مریدین اور مجاوروں کی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کئے جس میں ان پر واضح کیا کہ کشادگی کا عمل نہیں رکے گا ہر حال میں انجام پائے گا البتہ مزار کمیٹی کے تعاون کی صورت میں حکومت دوسری جگہ زمین کے ساتھ نئے مزار کی تعمیراتی اخراجات بھی ادا کرے گی۔ کمیٹی نے شرط پیش کی کہ وہ سرکاری مزدوروں سے بابا کے مرقد کی بے حرمتی نہیں ہونے دیں گے۔ مرقد کی کھدائی اور لاش کی منتقلی کا کام خود اپنے ہاتھوں میں لیں گے جس کی انہیں معقول ادائیگی کی جائے، اس شرط کو بخوشی تسلیم کیا گیا، مزار کی کھدائی، منتقلی اور نئے مزار کی تعمیر کے لیے بھاری رقم متعین کر کےکمیٹی کو موقع پر ادا کی گئی۔

مجاوروں نے کھدائی شروع کی، تین گز کی گہرائی تک کھدائی کے بعد بھی لحد کے آثار دکھائی نہ دیئے تو مریدین اور تماشائیوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ جس دوران سب کو خاموشی کا حکم دے کر ایک سفید ریش مجاور بولا: اے لوگو، میں تم سے نہ کہتا تھا(دیگر مجاوروں کی طرف اشارہ کرکے) کہ بابا کی جسد خاکی تیس گز کی گہرائی میں دفن ہے، یہ راز سینہ در سینہ ہمارے بزرگوں سے ہم تک پہنچا ہے، بابا کی وصیت تھی کہ انہیں عمیق گہرائی میں سپرد خاک کیا جائے، اس میں کیا راز تھا یہ ہم آپ کو نہیں بتائیں گے کیونکہ بابا نے راز آفشاں کر نے سے خود منع فرمایا تھا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ ان کی وصیت پر اپنے زمانے میں من و عن عمل ہوا تھا۔

مریدوں نے جزاک اللہ کا نعرہ بلند کیا اور زور و شور سے کھدائی شروع کر دی۔ سرکار کی طرف سے کھدائی کے لئے مشین فراہم کرنے کی آفر ہوئی جسے مجاورں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کیا کہ مشین کی کھدائی سے جسد خاکی کو نقصان پہنچنےکا احتمال ہے، بےحرمتی ہوئی اور بابا مریدوں پہ خفا ہوئے تو قہر و غضب نازل کرے گا۔

کھدائی جاری تھی جس دوران سفید تھیلا بغل میں دبائے ایک شخص آ دھمکا، سرکاری اہلکار نے جو سادہ کپڑوں میں ملبوس وہاں تعینات تھا مشکوک پا کر تھیلے کی تلاشی لی تو اس میں سے انسانی ہڈیاں برآمد ہوئیں، اس شخص کو مزید تفتیش کے لیے مقامی پولیس کے حوالے کیا گیا۔

چھٹے دن کھدائی تیس گز کی حد کو چھو گئی لیکن لاش تو کیا لحد کے آثار بھی دکھائی نہ دیئے، صورتحال پر غور و خوض کے دوران ایک دور اندیش مجاور نے ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ بابا کے زمانے کے پیمانے موجودہ گز کے پیمانے سے لمبے ہو سکتے ہیں کیونکہ عہد قدیم کے لوگ بھی قد آور تھے۔ دوسرا مجاور بولا: ہوسکتا ہے ان دنوں ناپ تول کا کوئی اور نظام رائج ہو جو فی زمانہ متروک ہوچکی ہو! لہذا کھدائی جاری رہنی چاہئے۔ کھدائی جاری رکھی گئی، مسلسل دن رات جاری رکھنے کے بعد پچاس گز کی گہرائی تک پہنچی، آثار نہ ملے، مٹی کا ڈھیر جمع ہونے اور لوگوں کے جمگھٹے سے سڑک کے کام میں خلل پڑ رہا تھا، عمومی ناپسندیگی اور حکومتی دباؤ کے نتیجے میں مزید کھدائی ترک کر دی گئی۔

مرید اور مجاور سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ صورتحال پر غور کے بعد طے ہوا کہ چونکہ متبادل پلاٹ اور رقم گرم بابا کی زیارت کا کمپن سیشن ہے، جسد خاکی نہ سہی رقم سے نئے پلاٹ پر بابا کی یاد میں مزار ہی تعمیر ہونا  چاہئے، مجاوروں میں سے دو نے اس تجویز سے عدم اتفاق کرتے ہوئے تجویز دی کہ تعمیر کے لیے مختص رقم اور پلاٹ کی آئندہ فروخت سے حاصل کردہ رقم مجاوروں میں تقسیم کردی جائے۔ یوں عدم اتفاق کی وجہ سے نتیجے پر پہنچے بغیر میٹنگ برخاست ہوگئی۔

مجاوروں کی سرگرمیاں اور میٹنگ کی روداد گورنر تک پہنچی تو انہوں نے مجاور اور مریدوں کی مشترکہ کمیٹی کو دفتر طلب کر لیا۔ کمیٹی سے گورنر نے دو سوال کئے، پوچھا: گرم بابا کی لاش  کا کیا بنا؟ گرم بابا کی حدود میں ایک شخص انسانی ہڈیوں کے ہمراہ پکڑا گیا، وہ شخص انسانی ہڈیاں وہاں کیوں لایا تھا؟ کمیٹی کے ترجمان نے کہا : چونکہ بےحرمتی گرم بابا کو منظور نہ تھی اس لیے کھدائی سے قبل ہی اپنی کرامات سے  لاش اوپر اٹھا لی گئی ہوگی ۔  رہی بات انسانی ہڈیوں کی تو اس سے ہم لاعلم ہیں، نہیں جانتے کہ وہ شخص وہاں کیوں لایا تھا۔

گورنر نے پوچھا کہ آگے ان کے کیا ارادے ہیں؟ کمیٹی کے اراکین یک زبان ہوکر بولے: آپ کی مہربانی سے پلاٹ اور رقم موجود ہے کچھ مزید مالی مدد فرمائیں گے تو بابا کی یاد میں شاندار مقبرہ تعمیر ہو سکتا ہے ۔ یہ سن کر گورنر اور قریب موجود افسروں کے چہروں پر مسکراہٹ دکھائی دی ۔ گورنر نے  آفس بوائے کو قریب بلا کر کہا: جاؤ۔۔ مزمل کو بلا لاؤ۔۔، مزمل آیا تو اسے حکم دیا کہ گزشتہ دنوں اس کمیٹی کو رقم ادا کی گئی تھی، تم پولیس کے جوان ہمراہ لے کر ان کے ساتھ جاؤاور وہ  پوری کی پوری  رقم ان سے  واپس لے آؤ۔۔ ان میں سے کسی نے ادائیگی میں چوں و چرا کی تو جوان اسے گرفتار کر لیں۔ مجاوروں سے مخاطب ہو کر گورنر نے کہا: جن کے تم جانشین ہو انہوں نے گرم بابا خود تخلیق کیا تھا۔  واقعی گرم بابا دفن ہوتا تو اس کی سرد ہڈیاں آج مل جاتیں۔ انسانی ہڈیاں وہاں کیوں لائی گئی تھیں ہم نے معلوم کر لیا ہے۔ گرم بابا کا ڈرامہ رچا کر تم اور تمہارے بزرگ سادہ لوح افراد  کو صدیوں سے لوٹتے رہے ۔ حرام خوری کی راہ چھوڑ کر آج سے رزق حلال تلاش کرو۔۔۔جاؤ چلے جاؤ یہاں سے ۔۔

یہ بھی پڑھیے