نکولا ٹیسلا۔۔ ایک پکا جادوگر

نیلم اعوان ، سپر لیڈنیوز، واشنگٹن ڈی سی ۔ آج سے ٹھیک 164 سال پہلے 1856 کی نو اور دس جولائی کی درمیانی رات کو اس وقت کی طاقتور سلطنت آسٹریا اور موجودہ کروشیا میں ایک سربین فیملی میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔

جب یہ بچہ پیدا ہو رہا تھا تو اس وقت آسمانی بجلی شدت سے کڑک رہی تھی۔ گھر میں خوف اور اندھیرے کا راج تھا۔ بچے کی دائی نے پیدائش کے وقت اسے ’اندھیرے کا بچہ‘ کا خطاب دے ڈالا۔ بچے کی ماں نے دائی کو فوری جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’نہیں، یہ روشنی کا بچہ ہے‘ ۔ماں کی بات درست ثابت ہوئی۔

اس روشنی کے بچے نے آگے چل کر انسانیت کو ایک ایسی ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا کہ تاریخ انسانی ہمیشہ کے لئے بدل گئی۔ ہمیں روشنی یا بجلی کی موجودہ شکل دکھانے والے اس بچے کا نام نکولا ٹیسلا تھا۔

یہ بچہ آگے چل کر تاریخ کے ان گنے چنے لوگوں میں شمار ہوا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ہم بیسویں صدی میں داخل میں ہوئے اور ان ہی کی وجہ سے بہت سے نئے کام اور بہت سی نئی ٹیکنالوجیز وجود میں آئیں۔کہتے ہیں کہ ٹیسلا کو بجلی اور اس سے related ایجاد کرنے کا شوق شاید اپنی ماں کو دیکھ کر ہوا جو کہ اکثر اپنے گھریلو کام کاج کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں خود ایجاد کر کے اپنے کاموں کو آسان کرتی رہتی تھیں۔

ٹیسلا نے آسٹریا کے بہترین تعلیمی اداروں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ 1884 میں ٹیسلا امریکہ پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے مشہور موجد تھامس ایڈیسن کی کمپنی میں نوکری کرلیآج سے تقریباً سو برس پہلے 1900 میں اپنے مشہور زمانہ ٹیسلا ٹاور منصوبے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ ان کا یہ منصوبہ دنیا کے لئے ایک سستا اور مسلسل بجلی اور انفارمیشن کی ترسیل کے لئے تھا جو کہ سترہ سال بعد، فنڈز کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ 1917 میں بند کرنا پڑا۔فنڈز فراہم کرنے کی ذمہ داری مشہور سرمایہ کار جے پی مورگن نے لی تھی تاہم جب انہیں اندازہ ہوا کہ اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں ’عام انسانوں‘ کو ’بالکل مفت بجلی‘ ملنے لگے گی تو انہوں نے اس منصوبے کو مزید فنڈز دینے سے انکار کر دیا۔صرف اس سرمایہ دار ہی نہیں سارے سرمایہ داروں نے اور یہاں تک کہ حکومت نے بھی ٹیسلا پر اپنے دروازے بند کئے۔ ٹیسلا، جو کہ مرتے دم تک کبھی بھی ایک مکان کے مالک نہ بن سکے اپنے مالی حالات کی وجہ سے اس منصوبے پر تالا ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔

ٹیسلا اور ان کے اس منصوبے کے حوالے سے 2008 میں فوربز میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گوگل کے کو فاؤنڈر لیری پیج کا کہنا تھا؛ ”ٹیسلا کی کہانی ایک اداس کر دینے والی داستان ہے۔ وہ اپنی کسی بھی چیز کو کمرشلایز نہ کر سکے۔ وہ اپنی ریسرچ جاری رکھنے کے لئے بھی بمشکل کما پاتے تھے۔ اور پھر اسی طرح اپنی ساری زندگی ہوٹلوں میں گزارنے والا یہ درویش شخص، نیو یارک کے ایک ہوٹل کے کمرے میں، 1943 کی جنوری کی سات تاریخ کو اس دنیا سے چلا گی

نکولا ٹیسلا ایک عظیم سائنسدان جس نے عوام کی حدمت کے لیے اپنا کام وقف کرنا چاہے مگر جیسے ہی سرمایہ داروں کو آسکے نیک ارادوں کا پتہ چلا تو ان کو تاریخ سے بھی حتم کرنے کی کوشش کی اور ان کے سارے ایجادات وغیرہ کو اپنے مقاصد اور کمائی کے لیے استعمال کئے ۔

آج جب سائنس دانوں کا نام لیا جاتا ہے تو سب سے مشہور آئن سٹائن کا نام لیا جاتا ہے باقی اور بھی بہت سارے ہے اور یہ سب قابلِ قدر بھی ہے۔ مگر دنیا آئن سٹائن کے علاوہ اسیے سانئس دانوں کا نام ہے جو آئن سٹائن یا دوسرے مشہور سائنس دانوں سے ان کا مقام بہت اعلیٰ ہے مگر تاریخ آج ان کو بھول چکی ہے ۔

نکولا ٹیسلا کی ایجادات

نکولا ٹیسلا جسی شحصیت کے سامنے آئن سٹائن یا دوسرے سانئس دان بچے یا بہت ہی زیادہ چھوٹے دیکھائی دیتے ہیں ۔یہ بات بھی شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1893 میں شکاگو میں ہونے والے ورلڈ کولمبین ایکسپو میں ٹیسلا نے پہلی بار اے سی سسٹم کی افادیت کے بارے میں اتنا شاندار ڈیمونسٹریشن دیا کہ اے سی سسٹم ہی دنیا میں رائج ہوا اور آج بھی یہی رائج ہے۔ اس زمانے میں جب دنیا میں تیل کی قلت یا کلین انرجی کا تصور کرنا بھی محال تھا، ٹیسلا نے 1895 میں نیاگرا آبشار پر دنیا کا سب سے پہلا ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ لگایا تھا۔ ٹیسلا کا نام الیکٹریکل انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ’ٹیسلا کوائل‘ کی وجہ سے نہیں بھول سکتا۔ٹیسلا کوائل آج بھی ہمارے استعمال میں آنے والے تقریباً سبھی برقی آلات کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اسی طرح ایکس رے، ریڈار، ریموٹ کنٹرول، وائرلیس کمیونیکشن، نیون لائٹس، ارتھ یا زمین کی فریکوئنسی کی دریافت، لیزر گن ٹیکنالوجی، جدید الیکٹرک موٹر، اور اسی طرح کے بے شمار آلات اور ٹیکنالوجیز کے نظریات نیکولا ٹیسلا نے پیش کیے تھے۔

ٹیسلا آٹھ زبانیں جانتے تھے جس میں سربین، انگلش، چیک، جرمن، فرنچ، ہنگیرین، اٹالین اور لاطینی شامل تھیں۔ ان کی یادداشت فوٹو گرافک تھی یعنی وہ صرف ایک بار دیکھ کر پوری کتاب یاد کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ بنا کوئی ڈرائنگ بنائے صرف اپنے دماغ میں آئے آئیڈیا کی مدد سے مشینیں بنایا کرتے تھے۔

موت کے بعد دنیا نے ایک عرصے تک ٹیسلا کو بھلائے رکھا اور ان کے نام اور کام کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار تھے، لیکن پچھلی صدی کے آخر میں ان کے حوالے سے ہونے والی نئی تحقیق کے بعد، ان کے نام اور کام کے حوالے سے کم از کم سائنسی دنیا میں آگاہی میں اضافہ ہوا ہے تاہم عوامی سطح پر آج بھی ان کا نام زیادہ نہیں جانا جاتا۔۔