رات اور سمندر

تحریر: محمد شكري (مراکش)

مترجم : محمد ضیا اللہ (سعودی عرب)

اسے یوں لگا کہ گویا ساحل سارا کا سارا اسی کا ہے، کچھ ہی دور ایک اپا ہج ہندوستانی بوڑھا تنہائی میں کھڑا سمندری جانوروں کو روٹی توڑ توڑ کر ڈال رہا تھا، وہ رکی اور ساحل پر تعمیر چھوٹے چھوٹے گھروں کو دیکھنے لگی، جن کے دروازے اُکھڑے ہوئے تھے جب کہ وہاں پر تعمیر کردہ شراب خانے مکمل طور پر بند تھے، چھوٹے قد والا انڈین بوڑھا اب ساحل سے دور اپنی تھیلی میں باقی ماندہ ذرےجھاڑتا ہوا رواں دکھائی دے رہا تھا، پرندوں کا ایک غول اس کے سر پردائرہ بنائے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھا، اس کا گنجا سر بائیں جانب کو جھکا ہوا تھا، ابھی تک کچھ پرندے اس کی پیروی کر رہے تھے، اس نے اپنا جوتا اور بیگ اتار کر ریت پر پھینک دیے۔

بھینی بھینی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ بارش کے قطرے اس کے بالوں میں سمو رہے تھے، سمندر کی موجیں اس کے پاؤں سےبوس و کنار تھیں،اس نے منہ آسمان کی طرف اٹھایا اور آنکھیں بند کرلیں، بارش کی بوندیں اس کے کھلے منہ میں جارہی تھیں، اسے فوارے کے نیچے بھی ایسا کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اس نے اپنا بیگ اور جوتے اٹھائے اور ننگے پاؤں چل دی۔ وہ اپنے پاؤں کے نشانات کو گھورے جارہی تھی، وہ کسی گہرے غم میں الجھی ہوئی تھی جس کا وہ برملا اظہار نہیں کر رہی تھی، لمبی گزر گاہ میں چلتے ہوئے حوض کے دوسری طرف “اٹلس ” نامی بار میں داخل ہوگئی، بلڈ میری کا آرڈر دے کر وہ باتھ روم گئی جہاں اس نے اپنے بال خشک کیے۔ بار کے ایک کونے میں ایک نوجوان ایک بظاہر خاموش سراپا احتجاج لڑکی کے ساتھ بیٹھا ، سگریٹ سلگاتے، شراب کی چسکی لگاتے اپنے متاثر کن دھیمے لہجے میں قسم کھا کر کہہ رہا تھا کہ نادیہ کے ساتھ اس کا تعلق صرف کام کی حد تک ہے۔

دوسری طرف ایک غیر ملکی اپنے دوست کو کہہ رہا تھا : “آج بارش کافی تیز ہوئی ہے۔”بار کا مالک بولا: “یہ مراکش میں سیلاب والا سال ہے۔”وداد ایک لمبی کرسی پر بیٹھ گئی، وہ ان کو غور سے دیکھ رہی تھی پر کچھ سمجھ نہ پائی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، غیر ملکی شخص کی نظریں اس کے ساتھ ملیں اور دونوں مسکرا دیے۔ نوجوان نے ایک سکہ موسیقی والے آلے میں ڈالا ، دریں اثنا اس کی دوست نے رونا دھونا بند کردیا، وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا، اس کے بالوں اور چہرے پر ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے ہاتھ کو ہاتھ میں لے لیا، کیسٹ شروع ہو گئی۔” اف میرے خدا! میں ہی غلط تھا، اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں، خدا را! میری وجہ سے اس کو مت آزمائش میں ڈالنا۔۔۔۔”

اچانک دروازہ کھلا ، زبیدہ اندر داخل ہوئی، نشے میں دھت، لمبی، موٹی آنکھوں والی، اس کاجسم جنگ جیت کر واپس لوٹنے والے فوجیوں کو لطف دینے کے لیے تیار تھا، وہ آگے بڑھی اور وداد سے بوس و کنار ہوئی۔ بار ٹینڈر نے اس کے لیے وائن کا گلاس اور شوگر اس کی طرف بڑھایا، زبیدہ نے ایک چمچ شوگر لی اور گلاس میں ڈالا، وداد اس کو دیکھ رہی تھی اور اس کے ذہن میں آیا کہ نبیل بھی وائن میں تھوڑا نمک ملاتا تھا تاکہ نشہ جلد نہ چڑھے،زبیدہ نے وداد سے کہا: “گذشتہ دو دن سے میں رات کو بمشکل دو سے تین گھنٹے سو پاتی ہوں۔”اس نے جوتی اتاری اورننگے پاؤں کھڑی ہوگئی۔”میں بیمار ہوں، میرا سر کھول رہا ہے۔”وداد کی آواز گلے میں پھنس کر رہ گئی تھی، وہ ان مردوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جن کے ساتھ سونے کا اس نے کبھی سپنے میں بھی نہیں سوچا تھا۔اس نے سمندر کی طرف دیکھا، افق پر بادل چھائے ہوئے تھے،رات نے ہر شے کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا، بارش گویا کہ شیشے پر تھپڑ مار رہی تھی۔ بارٹینڈر اور اس کا دوست دونوں باہم گفتگو تھے، گم سم وداد کے دل و دماغ میں پھول کھل رہے تھے، اپنی نامکمل خواہشات پر حسرت اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھی، خالی گلاس اس کے دل کو نہ بھایا، بارٹینڈر کو اشارہ کیا کہ اس کو دوبارہ بھر دو۔ آسمانی بجلی چمکی ساتھ ہی زور دار گرج کی آواز آنے لگی، زبیدہ کپکپا رہی تھی، اس نے وداد کے ساتھ آنکھیں ملائیں، آسمان اور سمندر میں تلاطم تھا، زبیدہ بولی: “مجھے اس گرج سے ڈر لگتا ہے۔”اچانک ایک سفید بلی کمرے میں نمودار ہوئی، اس نے زبیدہ کی طرف معصومیت سے دیکھا، اور میاؤں کرنے لگی، زبیدہ نے خوفزدہ ہوکر اس کی طرف دیکھا، اس نے وداد سے کہا: “کیا یہ دل کے قریب ہے؟” وداد حیران ہوکر بولی: “ارے یہ توصرف بلی ہے۔”ہر بلی کوئی عام بلی نہیں ہوتی، میری امی مچھلی کو دھو رہی ہوتی تھی تو بلی ساتھ میں میاؤں میاؤں کرتی رہتی تھی۔ایک دن جب اس نے بلی کو دھتکارا تو اس نے جھپٹ کر حملہ کیا اور ان کے ہاتھوں پر اپنے پنجے اور دانٹ گاڑ دیے۔ دو دن بعد دوبارہ گھر میں آئی تو امی نے سزا کے طور پر اس کو ایک کمرے میں بند کردیا،کچھ دن بعد ہم نے دروازہ کھولا اور دیکھا کہ ایک لاغر جسم حرکت کر رہا ہے، چلنے سے قاصر تھی، اس کی آنکھیں دہشت پھیلا رہی تھیں، میں نے امی سے کہا: ” ہم اس کو کچھ کھلائیں پلائیں!”امی چیخ کر بولیں: ہر گز نہیں، اس کو مرنے دو، اس پر سایہ ہے، اس کے سائے کو مرنے دو اسی کے ساتھ، اس کو دور لے جاؤ جہاں اس کو کھانے پینے کو کچھ نہ ملے۔”میں اور میرے بھائی نے مل کر اس کو ایک تھیلے میں ڈالا اور دور بے آب و گیاہ علاقے میں جا چھوڑا، میں نے بھائی سے کہا کہ وہ واپس روانہ ہوجائے اور میں اس کے لیے کچھ کھانے کو ڈھونڈ کر لاؤں تاکہ بیچاری زندہ رہ سکے، یہ سن کر میرا بھائی بولا کہ میں جا کر امی کو سب کچھ بتاؤں گا۔ہم نے اس کو وہیں چھوڑا اور واپس چل دیے، وہ بے چاری خالی ڈبوں کو پاؤں مار کر کھیل کود میں مشغول ہوگئی، مجھے اسے اس طرح بھوک کے عالم میں چھوڑ کر آنے پر گہرا دکھ تھا۔رات کو امی کے رویے میں بلی کی بابت بدلاؤ آیا، میں اور میرا بھائی علی الصبح بلی کی تلاش میں کچھ کھانے کا سامان لے کر نکلے، تاکہ اگر وہ زندہ ہو تو اس کو بچایا جا سکے، لیکن ہم خالی ہاتھ لوٹے، میں نے امی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ شاید کوئی راہ گیر اس کو لے گیا ہو تاکہ اس کی دیکھ بھال کرے۔ وہ بولیں:” ہر گز نہیں، بلکہ اس کی روح بھوت بن کر رات بھر مجھے ستاتی رہی ہے۔”اس واقعے کے کئی سال بعد تک میری امی حیات رہیں مگر وہ اس بلی کے وہم سے مرتے دم تک نجات نہ پاسکی۔” تو آج تم بھی اپنی ماں کا بدلہ اس بلی سے لینا چاہتی ہو؟”” میں! ہرگز نہیں، دراصل جاندار مجھے ذرا بھی نہیں بھاتے ۔”زبیدہ نے بارٹینڈر سے ان دونوں کے گلاس بھرنے کا کہا، وداد کو میلود کی فارسی النسل بلی یاد آ گئی۔ وہ کنوارہ تھا، جو خود کھاتا تھا اسی میں سے بلی کو بھی کھلاتا تھا، اسے نہلاتا، اپنے ساتھ سلاتا تھا، پھر جب وہ عمر رسیدہ ہوئی، بیمار رہنے لگی اور اس کے بال جھڑنے لگے، تو اس نے باتھ ٹپ بھرا اور اسے گدی سےپکڑ کر پانی میں غوطے دینا شروع کیے جب تک کہ اس کی سانس نہ اکھڑ گئی۔ اسی بارے میں ایک نغمہ ہے : “میری عمر بیس سال تھی جب میں نے اپنا وقت پاگل پن میں ضائع کیا۔”اس نے اپنی ڈائری اٹھائی اور لکھنا شروع کیا:” امید ایک حسن اتفاق ہے، تصورات کی دنیا حسن نیت کا نام ہے، کئی بار مجھے محض اس وجہ سے کہ ہم دونوں ایک ہی آوارہ عورت سے محبت کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو گلے لگانا پڑتا ہے جن کو میں سخت نا پسند کرتا ہوں ۔”اس نے وداد کی طرف محبت بھری نظر میں دیکھا،اس نے پوچھا: “کیا لکھ رہے ہو؟”” اپنے احساسات اور افکار” اس نے جواب دیا۔لوگوں کی رات، میری بے لباس رات، برائی کی رات، تنہائی کی رات، کیڑوں مکوڑوں کی رات جو کہ ایک مرے ہوئے چوہے پر لڑ رہے تھے، گویا کہ مجوسیوں کی رات ہے، مشہور ہے کہ مجوسی تاریک رات کو پسند کرتے ہیں۔”وہ کھڑکی کے قریب بیٹھے ہوئے ستاروں کو گھور رہا تھا اور وداد پلنگ کے ایک کنارے پر لانجری پہنے اپنی ٹانگیں نیچے لٹکائے لیٹی ہوئی تھی، طبیعیت میں تھوڑا ملال محسوس کیا تو اس نے لکھا:” لوگ تکلیف سے کراہتے ہیں جبکہ اللہ میاں کو تکلیف نہیں ہوتی،اسے غم نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے،ہم بشر تھوڑا بہت جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔”اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اپنی سوچ کو یکجا کرے، اس نے گلاس میں سے چسکی لی، وداد اس کے سامنے ایک یتیم کی طرح بیٹھی ہوئی تھی، اس کے سامنے مستقبل ہے، کل کلاں یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرے گا اور پروفیسر بن کر نکلے گا، اس کے بعد اس کے ساتھ کوئی اور عورت ہوگی جبکہ میں اسی طرح اجنبی مردوں کے ساتھ سونے پر مجبور رہوں گی۔ایک لمحے کے لیے اس کو خیال آیا کہ اس کو اپنے گھر سے نکال دے اور پھر دوبارہ کبھی اس کو نہ ملے گی لیکن اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی ، اس نے اپنی رائے بدلی اور محبت بھری نظر سے اس کو دیکھنے لگی جبکہ وہ اپنے ان احساسات کو جنہیں وہ نہ سمجھ پاتی تھی، قلمبند کرنے میں پوری طرح مگن تھا۔نبیل ریت پر بیٹھا ہوا تھا، وداد اپنے اعصاب پر قابو پانے کے لیے سمندر کےکنارے ہلکے پانی میں چل رہی تھی جہاں اس کے پاؤں سمندر کے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔وہ پہلے سے زیادہ نشاط میں واپس لوٹی جبکہ نبیل ابھی تک اپنے رجسٹر میں اپنے احساسات قلمبند کر رہا تھا، اس نے سوچا کہ یہ لڑکی ایک بنا ڈنڈی کے گلاب کا پھول ہے۔ پھر اپنے بارے میں لکھنے لگا : “جنگل کی رات جہاں الو، چمگادڑ، ترڈیاں ،مینڈک، لومڑی ساحل کی رات سے کئی درجے بہتر ہے، یہاں تو سب کچھ دفن ہے ریت کے نیچے اور جو کوئی زندہ ہے وہ سمندر کے پانی میں ہے۔ان دونوں کو سمندر کا پانی دو رنگا نظر آ رہا تھا، قریب والا سبز اور دور والا نیلا ۔سمندر کی افق گویا سفید رنگ کے پھولوں کا منظر پیش کر رہی تھی جن کو دھند نے گھیرا ہوا تھا۔اس نے مٹھی میں ریت بھری، یکدم آنکھوں سے آنکھیں ملیں جس سے خواہشات کو ہوا لگی، اس نے آنکھیں بند کیں، وہ اپنے چہرے پر سانسوں کی گرمی محسوس کر رہا تھا، ریت پر اس کی مٹھی کی گرفت کمزور پڑ گئی، وہ دونوں کھڑے ہوکرہم کنار ہوئے، عریاں جسم اسے مزید اس کے جسم کی تمازت کا گرویدہ بنا دیتا ہے۔بار کے باہر لگی لمبی قطار میں لگے ہر چہرے کو اس نے غور سے دیکھا،ایک نوجوان ہاتھ میں پھول لیے اس سے ہم کلام ہے جب کہ سامنے بیٹھی اس کی دوست اس کو مشورہ دے دے رہی تھی کہ اسے کیا کہنا چاہیے،وداد کو یوں محسوس ہوا گویا کہ ان سب کی رغبت اس ہی کی طرف ہے،سمیر نے اس کی طرف دیکھا اور اپنی جیکٹ کو فروخت کرنے کے لیے پیش کیا، اسے یوں لگا کہ اتنے سارے دیوانے اس کا ریپ کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہےہیں۔ بار مردوں سے بھری ہوئی تھی، پانچ یا چھے لڑکیاں سب کو کمپنی دے رہیں تھیں، یہاں رکھا گلاس ختم کیا کہ دوسرے ٹیبلز پر بیسیوں گلاس ان کے انتظار میں تھے۔ یوں یکدم اتنے زیادہ چاہنے والوں کا ہجوم وداد کو اچھا نہیں لگتا تھا وہ اپنے پر صرف نبیل ہی کو فریفتہ دیکھنا چاہتی تھی،اس کا خیال تھا کہ خواہش بھی محبت ہی کی پیداوار ہے، اس کا کسٹمر جو کہ عمر رسیدہ، شادی شدہ تھا اور اس کے ساتھ نرم برتاؤ کرتا تھا مگر ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔نبیل نے اپنی ڈائری میں اس کے بارے میں لکھا تھا: ” میں وداد کو اس وقت سمجھ پاتا ہوں جب وہ مجھ سے جدا ہوتی ہے، میری زندگی کااس سے اتنا ہی گہرا تعلق ہے جتنا کہ اس جدائی سے ،مجھے موسیقی بھی اسی وقت بھاتی ہے جب وہ دور سے موہ لینے والی لہروں کی صورت میں آتی ہے،فطرت کے مناظر شرح صدر کے لیے زیادہ کار آمد اسی وقت ہوتے ہیں جب کبھی یوں لگےگویا اونچائی سے گہرائی کو اس طرح دیکھوں کہ میرا سر چکرا جائے، یکدم ذہنی الجھنیں ایسے ختم ہوتی ہیں جس طرح مینٹل ہیلتھ سینٹر میں بجلی کے جھٹکے دینے سے علاج کیا جاتا ہے، میری ذات گویا کہ دوسرے کنارے پر لگے مینار کی سرچ لائٹ ہےجوہر پانی پر تیرنے والی چیز کو مجنوں کی طرح روشن کر رہی ہو، میں اپنے تئیں عقلمند بننے والوں اور پاگلوں سے اکتا چکا ہوں۔وہ ابھی تک اپنی جگہ پرتنہا ہی تھی جب ایک کالی رنگت والا مراکشی داخل ہوا ، وہ خوبصورت اور مہذب تھا، وہ ایک ٹیبل پر پہلے سے دوبیٹھے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ محو گفتگو ہو گیا، اس نے ڈوبتی لڑکی کو بچانے کی کہانی سنانی شروع کردی، اچانک وہ اونچی آواز میں بولا: “اچھائی کو نہ سراہنے والے لوگ مجھے ناپسند ہیں۔”وداد اپنے آپ کو اس کی طرف دیکھنے سے روک نہ سکی،اس نے وداد کی طرف دیکھا، دائیں آنکھ ماری ساتھ ہی نچلے ہونٹ پر زبان ماری، وہ سوچ رہی تھی کہ اب وہ پھنس گئی ہے، کاش کہ اس کی طرف نہ دیکھا ہوتا، میں آج تک کسی حبشی کے ساتھ نہیں سوئی۔ایک بچی خالی ہاتھ پھیلائے ہوئے اندر آئی، وداد نے اس کو قریب آنے کا کہا، اس کے آگے بڑھے ہوئے ہاتھ سے پکڑ کر بولی:”تمہارا نام کیا ہے؟””رحمت””تمہاری ماں کہاں ہے؟””باہر انتظار کر رہی ہے۔”اس نے اس کو کچھ پیسے دیے اور نرمی سے رخصت کردیا۔وداد نے اپنے کندھے پر رکھے جانے والے ہاتھ کی طرف دیکھا گویا کوئی کوا خوب مستی میں مدہوش ہو، اسے وہ ہاتھ پھسل کر کمر کی طرف جاتا محسوس ہو رہا تھا، پہلا بلیک ہاتھ اس کی طرف بڑھ رہا تھا، حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی، وہ مسکرایا، اس کی آنکھوں میں خوشی تھی، اس کے دل میں خیال آیا کہ اس کو خوش کرنا اس کے بس میں نہیں، ایسےشخص کی طرف سے ملاپ کی خواہش جو اس کی پسند نہیں، یہ احساس اس کے لیے خود ایک تاریک رات تھی، وہ پرسکون رہی، اس کے جذبات ابھی تک دھندلے تھے، وہ آگے بڑھا اور اپنےسر کو اس کی کمر پر رگڑ کر بولا: ” تم خوش تو ہونا؟”اس نے خاموش نگاہوں سے نیم خوابی کے عالم میں اس کی طرف دیکھا، وہ ایک معصوم بچے کی مانند لگ رہا تھا جو کسی سزا کا مستحق نہ ہو، اس نے آگے بڑھ کر اس کے گال پر بوسہ دیا،اس کی ناک گرم، سانسوں کی مہک میں شراب اور تیز خوشبو کا ملاپ تھا، وہ اپنے آپ کو بے حد وحشت ناک مکان میں تصور کر رہی تھی، وہ اٹھی اور نشے میں دھت چیر پھاڑتی آنکھوں کے درمیاں سے باہر جانکلی، حبشی اپنی مستی پہ سوار اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

(عربی سے اردو ترجمہ)اصل عنوان: الليل والبحر

Written byMohamed Choukri (born on July 15, 1935 and died on November 15, 2003, was a Moroccan author and novelist