دُوسری رفاقت

تحریر : سُشم بیدی،ہِندی سے اُردو ترجُمہ: عبدالقیّوم خالد(شکاگو۔امریکہ)

وہ گُھورے جا رہی تھی اخبار کے اُسی صفحہ کو جہاں اِشتہار چھپا تھا، اُسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ اِشتہار اُس کے لیے ہے۔یُوں اخباروں کے اِشتہاروں سے شادیوں کے کام لینا اُسکے لیے نئی بات نہیں تھی۔

بیٹی کی شادی کیلئے اِسی طرح سے بر چُنا گیا تھا۔ یہاں تک کہ چھوٹے بیٹے کے لیے بھی اِشتہار نکلوایا تھا۔ وہ تو یُوں ہو گیا کہ اِشتہار سے بات بنی نہیں اور بیٹا پھر اپنی پسند کی ہی فرنگی دُلہن لے آیا۔ وہی دلہن اب کہتی تھی کہ ”یوئرمدر شُڈ ہیو ہر اون انڈپینڈینٹ لائف۔

میری ماں نے بھی تو دوسری شادی کی ہے۔ اِس میں کوئی بُری بات نہیں۔ یہاں جو رہتا ہے اُسے یہیں کے رسم و رِواج کے مُطابق چلنا چاہیئے۔””ممّی وہ کچھ غلط تو نہیں کہتی ہے؟” بیٹا بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ اِس سب کا نتیجہ یہ نِکلاکہُ اُس کے رہنے کو کوئی گھر نہیں ہے۔ بیٹے کے پاس رہنے کا اُس کا حق چِھن چُکاہے۔ چھننا تو کیا کبھی دیا ہی نہیں گیا۔ یہی اُمید کہ ماں کبھی کبھا ر مہمان بن کے تو آ سکتی ہے پر اپنی اکیلی زندگی کا بچا کُچھاحِصّہ اُنہی کے سرہانے کاٹنے نہیں آئنگیں۔ بیٹی کے پاس جاؤ تو داماد اِس طرح گُھورتا ہے کہ بیٹا تو رکھتا نہیں اب ہمارے سر پر بوجھ کیوں اُتار رہی ہو اپنا۔ دامادکی تو ذِمہ داری ہے نہیں کہ ساس کی دیکھ بھال کرے۔کہاں جائے رتنا؟ اب کیا کرے؟اخبار کے کھلے صفحہ پر پھر سے نِگاہ چلی جاتی ہے!کیسے کرسکی وہ یہ؟پر اُسی نے تو نِکلوایا ہے کہ ایک ساٹھ برس کی بیوہ کو شادی کیلئے موزوں رِشتہ کی تلاش ہے؟موزوں رِشتہ سے کیا مطلب؟

شاید وہ خُود بھی اِس معاملے میں صاف نہیں ہے؟ہاں کوئی لُولا لنگڑا نہ ہو! اتنا تو صاف کہہ سکتی ہے؟پر کہنا چاہتی کیا ہے؟من کِس سے ملے گا؟ کیا اُسے صاف طور پر لِکھا جا سکتا ہے؟کیا ایسا کوئی ہوگا جس کے ساتھ رہا جا سکے؟کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے اور وہی کہا ہے اُس نے، اُدھیڑ عُمرکا، پنجابی ہو پر کسی اوررِیاست کا بھی ہو سکتا ہے، صحت مند، شراب نہ پینے والا، عیب اور بیماریوں سے بری، رنڈوا، طلّاق شُدہ یا غیر شادی شُدہ۔چھوٹی بہن اور جیجانے ہی یہ سب سُجھایا تھا پتہ نہیں سنجیدہ تھے کہ مزے لے رہے تھے،من ہی من تو وہ دونوں بھی ہنستے ہی ہونگے پتہ نہیں کِس کِس رِشتہ دارسے چاہے باتیں بھی بناتے پھریں! کِتناہلکا، کِتناچِھچھورا سمجھیں گے سب من میں اُسے! ویسے تو جیجا، بہن بہت مددگار بنتے ہیں صلاح تو اُنہیں کی دِی ہوئی تھی، اُس کو اُبھارنے کا ہی جتن تھا پر اگر رتنا خود نہ حامی بھرتی تو کسی کو کیا پڑی تھی اشتہار نکلوانے کی، اصلی مرضی تواُس کی اپنی ہی تھی نا، جھٹھلائےگی کیسے اِس بات کو!مرضی تھی کس بات کی یہ وہ شاید خُود بھی نہیں جانتی تھی۔ کیا سچ مچُ شادی رچائیگی کسی دُوسرے مرد سے؟

کتنی گِھناؤنی بات ہے! اوررتنا کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جاتے! بھیتر کہیں کچھ نرم سی کمہلائی ہوئی سی پنکھری انگڑائی لینے لگتی۔کہیں سچ مُچ؟ اور نئی نویلی دلہن کی طرح وہ خُود سے بھی شرما جاتی۔کوئی مرد سچ مُچ اُسے چُھوئے گا؟ اُسے اپنائیگا اُسکا اپنا ہوگا؟ بہت اپنا؟ اپنی سی باتیں کریگا؟ اُسکا چہرہ، اُسکا جسم، اُسکے ہاتھ، اُسکے ہونٹ، اُسکی آواز، اُسکی مسکان، اُسکا سب کچھ اِتنا پاس، اِتنا پہچانا؟ رتنا سوچ کرجُھرجُھری لیتی ہے!بچوں کی پرورش میں لگا اُسکا بیوہ جِسم کِسی کنواری سے بھی زیادہ کنوارا ہو چُکا ہے کیوں کہ اُسے کسی کے چُھونے کا یا آنے کا انتظار نہیں تھا، لکڑی کے گُلاب کی طرح، جو ایک بار کِھل کر کِھلاہی رہے چاہے کوئی آئے نہ آئے، اُسے تو کِھلنا ہی ہے۔ اِن سب کوجو اُس پر نربھر ہیں اپنی دیکھ بھال سے پالناپوسنا ہی ہے۔ اور اب تو کوئی نربھر نہیں، سب اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے ہیں، تو کسِ کے لیے کھِلارہے گُلاب؟کیا جھڑ کر ختم ہوجائے؟ یا دے جائے کسی اور کو اپنی رنگت کا سُکھ اور پا جائے خود اُس سُکھ کا مزا؟گھبرا جاتی ہے رتنا، اُس لُطف کے نام سے بھی۔اُس کے پاس میں پڑے تھے تصویروں کے ساتھ بھیجے گئے اُمیدواروں کے جواب بھی، اُس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ اُن کو غور سے دیکھ کر کُچھ سوچے، فیصلہ لینے کی بات تو دُور رہی۔بھیتر ایک ہی بات گھن چکّرکی طرح گھوم رہی تھی۔

آسمان میں بیٹھے پرتاپ کمار کیا کہہ رہے ہو نگے؟ کیا ہو گیا ہے اُنکی بیوی کو، اب تک جو اُنکو انتھک پُوجتی رہی، ہمیشہ اُنکی یاد کو سینہ سے لگا کر زندگی کا ہرکام سہی ڈھنگ سے نِبھاتی رہی، آج اِس بات پر تُل آئی ہے!یہ کیا ہو گیا ہے اُن کی اچھی بھلی بیوی کو!اور رتنا کے بھیتر جیسے کوئی طُوفان گھیرے جا رہا تھا۔یہ ہو کیسے گیا؟ کیوں ہو گیا؟پرتاپ کی اچّھی یادوں کو کیوں بربادکر رہی ہے پرتاپ جی نے تو صرف اُسے پیار دیا بہت بہت پیار دیا، یہاں تک کہ اُسے اپنے خاندان والوں کے بوجھ سے بھی بچائے رکھا، نند آکے ساتھ رہنا چاہتی تھی، پیسے بھیج دئے پڑھائی کے لیے،پھر جہیزکے لیے بھی، کہا کہ رتنا کو کوئی تکلیف نہیں دیگا۔پیار دیا اُسی سے ابھی تک کسک بنی ہی ہوئی ہے چالیس برس بیت گئے اس شادی کو، آج بھی وہ پرتاپ کی ہی دُلہن ہے۔سچ مُچ کوئی شکایتیں تو یاد ہی نہیں، ہیں بھی تو پیار کی ہی باتیں،یا موقع بے موقع دِل کو زخمی کر جانے والااُنکی غیر موجودگی کا احساس!تو پھر یہ اشتہار کس لئے؟

کبھی ایسا کر پائے گی، اُس نے سوچا نہیں تھا،لیکن اور کوئی چارہ بچا ہے سوِا ئے گہری تنہائی کے!کوئی تو اُس کا نہیں! تب وہ کیوں کسی کی پرواہ کرے!بیوہ ہوئی تھی تو اکیلی ہی تھی پر کبھی اس طرح کی تنہائی محسوس نہیں ہوئی۔ کِسی نہ کِسی کو ساتھ دیتے ہی پایا۔ پھر اپنے بچّے تو ہر دم گھیرے ہی رہتے تھے۔ اب عمر کا تقاضا، پردیس کے رسم و رِواج، کہیں کچھ بات بن ہی نہیں رہی، نہ کسی سے شکایت کرنے جیسی، نہ خود کے جینے کا ہی کوئی بندوبست۔تو کیا وہ ایسا صرف اپنے بچوں کو، اپنے رِشتہ داروں کو سزا دینے کے لیے، صرف سزا دینے کے لیے ہی کر رہی ہے! یہ بتانے کے لیے کہ تمہارے گھر میں میرے لیے جگہ نہیں تو میرے یہاں بھی تُمہاری جگہ تُمہارا خیال نہیں!اُن کو تو اندازہ بھی نہیں ہوگا؟اگراُنکواندازہ ہی نہیں تو پھر؟

پرہاں اگرسچ مُچ وہ شادی کرلے تو پتہ تو چلیگا ہی،تب چوٹ بھی کھائینگے! کیا پتہ چوٹ لگے ہی نہ؟کسی کو کچھ فرق پڑے ہی نہ!تب اِس جھنجھٹ کا فائدہ ہی کیا؟لیکن دیکھا جائے تو تب وہ سُکھ سے جی سکتی ہے۔ کوئی اُس کے نئے نویلے جیون میں تب دخل اندازی تو نہیں کرے گا نا! نہ ہی کسی کواُسکا کوئی بوجھ اُٹھانا پڑیگا!اور کیا سچ مچ وہ اُنکو چوٹ پہنچانا چاہتی ہے؟چوٹ پہنچیگی کہ نہیں پر اُنکا راستہ صاف ہو جائیگا؟ اب رتنا کو آسرا دینے کا بوجھ کوئی محسوس نہیں کریگا چاہے بھائی بہن ہوں یا اپنے بچّے!کوئی نہیں کہے گا کہ یہاں تو سب کو اپنا اپنا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ کسی کو دوسرے کا منہ نہیں جوہنا چاہیئے۔سب کہیں گے اب کسی کو رتنا کی خیر خبر لینے کی ضرورت نہیں، اپنے مزے سے رہ رہی ہے”- چاہے بچاری کا دم ہی گُھٹ رہا ہو! کسی کو کیا پرواہ!رتنا نے ہِمّت کرکے ایک لفافہ کھولا ادھیڑ سے آدمی کی تصویر، کھچڑی داڑھی اورگنج، کراہیت سی ہوئی اُس کو، کہاں اُس کے شوہر پرتاپ اور کہاں یہ بُوڑھاکُھوسٹ؟پرتاپ آج ہوتے تو کیا اس طرح لگتے؟ نہیں، قطعی نہیں، اُن کی خُوش اخلاقی اوراُن کا وِقارتوآج بھی ویسا ہی ہوتا۔ ٹھیک ہے، چہرے پرعمرآبھی جائے پرآدمی کی شخصیت توبدلتی نہیں۔ یُوں ان کُا بُوڑھا پن وہ نہیں دیکھ پاتی۔ اپنے ہررُوپ میں وہ جوان ہی ہوتے۔

اُسی عمر میں چُھپ گیا تھا چہرہ جِس میں وہ گئے تھے۔ اُسکے چھتیس سال کے جوان پرتاپ کمار، بلکہ جو تصویر گھر میں لگی تھی، وہ سال بھر پہلے کی تھی۔ وہی چہرہ تھا اب رتنا کی آنکھوں میں، تصویر والا چہرہ، اصل چہرہ تو جانے کب کا دُھندھلا سا گیا تھا- بیٹا بھی تو لگ بھگ اُسی عمر میں تھا کِتنا مِلتاجُلتا ہے پاپا سے- پراِس سے کیا؟ وہ بھی کہاں ہے اب رتنا کی دنیا میں؟ سب اپنے اپنے دڑبے میں گُھسے ہیں، اپنی اپنی پرواہ، کسی دوسرے کی خیرخبر نہیں، فِکر نہیں، جیسے کہ دنیا صِرف اُنکے اپنے گرد ہی گُھومتی ہے، اُسکے باہر کچھ نہیں۔

اپنے بھائی اپنی بہنیں، اپنے بیٹے، اپنی بیٹیاں پھر بھی اِس بڑے سے سنسار میں کوئی اپنا نہیں سب کوڈر لگتا ہے کہ کہیں رتنا اُنکے ساتھ نہ رہنے لگ جائے! پتہ نہیں کِتنا بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا اُنکی زندگیوں میں! رتنا اب ایک بہن یا ماں نہیں ایک مسئلہ تھی ایک مصیبت جس کا کوئی حل نہیں تھا۔یہ بھی کوئی بد دُعا تھی کیا؟ اِتنی عمرمیں پتی چل بسے تھے۔ اب بیٹا دنیا میں ہوکر بھی اُس سے دورہو گیا ہے! ایک ایک کرکے سب کا ساتھ چُھوٹتا گیا۔ بس یہیں تک ساتھ ہونا تھا! اب بس اپنا اکیلاپن، اپنے آپ کا بوجھ، کتنوں کے بوجھ ڈھوئے؟ اب اپنا بوجھ ڈھونے کے بھی قابل نہیں۔کوئی ساتھ چاہیئے بوجھ ڈھونے میں مدد کرنیوالا! کیا ایسا بھی کبھی ہوتا ہے؟رتنا میز پر پڑی ہر تصویر کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے چوری کر رہی ہو جبکہ اُسکی اپنی بیٹی نے ہی اسے صلاح دی تھی کہ،” ممّی آپ کو بڑھاپے میں اپنا کوئی ساتھی ڈھونڈ لینا چاہیئے۔ یہاں سب ایسے ہی کرتے ہیں۔ میری سہیلی کی ماں تو اسّی کی ہونے والی ہیں اور وہ چھیاسی سال کے اپنے ایک پڑوسی کے ساتھ جُڑ گئی ہیں۔ دونوں مزے سے رہتے ہیں، ایک دوسرے کا ساتھ بھی رہتا ہے ایک دوسرے کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ ورنہ ممّی پوتے پوتیوں کے پاس کہاں وقت ہے۔”بہن نے اپنا سجھاؤ دیا تھا، ”بہن جی آپ کو اپنی زندگی اپنے ڈھنگ سے، اپنے بُوتے پر جینی چاہیئے۔ آپ کو بھی کوئی بوائے فرینڈ بنا لینا چاہیئے۔ یہاں تو بُوڑھے بُوڑھے لوگ شادی کرتے ہیں۔

یہاں اِس میں کوئی برائی نہیں مانی جاتی۔ اُلٹے لوگ خوش ہی ہوتے ہیں کہ آپنے بُڑھاپے میں بھی زندگی کو دِلچسپ بنا لیا۔ ورنہ بھائی بہنوں کے آسرے کہیں بُڑھاپا کٹتا ہے؟ کسی کے خاوند کو عُذر ہوگا تو کِسی کی بیوی کو۔ بھائی بہن شادی کے بعد کہاں اپنے رہتے ہیں؟ پہلے اپنے بیوی بچوں کو ہی سنوارینگے آخر۔”رتنا کے چہرے پر تضحیک کی لہر سی پھیل گئی۔ پاگل ہو گئی ہے بہن بھی، مذاق سُوجھتا ہے اُسے۔پھر غُصّہ میں جیسے ساری دنیا سے بدلا لیتی ہوئی آواز میں کہا، ”ٹھیک ہے تو ڈُھونڈ دے مجھے آدمی، کر لونگی میں دُوسری شادی، بُڑھاپے کی شادی۔”جیجا پورے زور سے بولا، ”ٹھیک ہے میں اخبار میں اشتہار دے دونگا۔ پھر جواب آئینگے تو مِل لینا۔ مِلنا آپ کو ہی پڑیگا۔ مُجھے مت گھسیٹنا اِس جھنجھٹ میں۔””ٹھیک ہے تُم اِشتہار دے دو۔”رتنا میں جوش وخروش بھی تھا ،ایک کھیل کا سا مزہ بھی تھا اور کُچھ پا لینے کی اُمید بھی۔ساتھ ہی بھیتر کہیں رتنا اِتنا اُجڑا اِتنا اکیلا محسوس کرتی رہی تھی کہ کہیں لگا کہ یہ علاج بھی کرکے دیکھ لیا جائے، شاید من کو کچھ سُکون مِل جائے!سچ یہ تھا کہ رتنا کے بھیتر کہیں کوئی دبی ہوئی خواہش بھی تھی۔

ذرا دیکھیں تو کیا ہوتا ہے! کیسا آدمی ہوگا؟ کِس طرح کا مردرتنا کو پسند کریگا؟ عُمرکے اِس پہلو پر آکر کِس طرح کا مزہ ہوتا ہے؟اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ یہ اکیلا بُڑھاپا کاٹنا بڑا دُوبھر ہے۔ بیمار ہو جاؤ تو کوئی پُوچھنے والا نہیں!پوتے پوتیوں سے رتنا کچھُ اُمید کر نہیں رہی تھی۔ یُوں بھی ابھی وہ بہت چھوٹے تھے۔ پر حیرانی تو اپنے بیٹے پر ہی تھی جس کا سارا دھرم کرم اب اسکی عورت ہی تھی۔ بیٹی کو بھی اپنے میاں کے مارے منہ موڑ لینا پڑا۔اوراگر وہ سچ مُچ کِسی دُوسرے مرد کے ساتھ رہنے لگے تو سب کیا اُسے قُبول کر پائینگے؟ اوہ کِتنی شرم آئیگی اُنہیں۔ چاچے تائے کے آگے سب کی ناک کٹ جائیگی۔ وہ کہیں گے، ”دیکھا دُوسرا آدمی کر لیا ہے رتنا نے۔”وہ کیسے سُنے گی لوگوں کی ایسی باتیں،کیسے چوٹ پہنچا سکتی ہے اپنوں کو؟لیکن رتنا بھی کرے تو کیا؟ کیسے اٹھائے اِس کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کا بوجھ۔ جب تک جِینا ہے، جِینا تو ہےہی۔ توکیسے جِیناہے؟کیا یہی ایک مُناسب راستہ نہی ہے؟

بچوں رِشتہ داروں کی بھی ذِمہ داری ختم!وہ میز پر سبھی تصویریں پھیلانے لگی زیادہ نہیں چارہی لوگوں نے جواب دِیا تھا۔ ایک طلّاق شُدہ تھا باقی دونوں کی بیویوں کی موت ہو چکی تھی۔ ایک اُمیدوار تو اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہا تھا اور اُمید کر رہا تھا کہ اگر رِشتہ بن جائے تو وہ رتنا کے گھر میں رہنے چلا آئیگا۔ ایک امریکی کا خط بھی تھا۔ وہ بھارت اور پاکستان میں رہ چُکا تھا اور اُسے کسی ہندوستانی عورت کے مِلنے اور اُسکےساتھ زِندگی گُزارنے میں دِلچسپی ہوگی۔ اُسکی یُوں توتین شادیاں اور تین ہی طلّاق ہو چُکے تھے۔ اُسنے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ مانتا ہے کہ بیوی کے روپ میں ایشیائی عورتیں زیادہ نازُک، جذباتی اور خِدمت گُزار ہوتی ہیں۔رتنا نے منہ بچکایا، ”سالا خِدمت کروانا چاہتا ہے۔ اب میری خِدمت کرنے والی عمر نہیں۔ میں تو اپنی خِدمت کروانا چاہتی ہوں، مجھے کیا پڑی ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں یہ دُوسری بیماری پال لُوں۔ اُنکے لیے کھانا بناؤ،صفائیاں کرو، پہلے کم کام کیا ہے زندگی میں جو ایک اور مصیبت پالُوں؟”اُسے دوسرے مردکے خیال سے ہی گھبراہٹ ہونے لگی،”کیسا زمانہ آ گیا ہے؟ رتنا کی ماں آج زِندہ ہوتیں تو کیا کہتیں بیوہ بیٹی دُوسری شادی کر رہی ہے اور وہ بھی ساٹھ سال کی عُمر میں؟وہ سچ مُچ اگراِن اُمیدواروں سے مِلی تو کیا سوچینگے وہ اپنے من میں؟ کیسی عورت ہے جو اِس عُمرمیں اشتہاردے رہی ہے اُسکی ہیٹھی تو نہیں ہوگی؟ اُسکو کمزورکِردار والی تو نہیں سمجھا جائیگا؟ اُسے یاد ہے کہ جب پنجاب میں کالج میں تھی تو اُسکی جو کوئی سہیلی بھی مردوں میں دِلچسپی لیتی تھی اُسے”لوز کیریکٹر” کہہ دیا جاتا تھا۔رتنا کو سوچ کے شرم آنے لگی شاید اُسے بھی کوئی ”لوز کیریکٹر” سمجھیگا سیکس کی بُھوکی سمجھے گا جبکہ ایسی بات قطعی نہیں ساری عمرتو پرتاپ کمار کے نام پر بِنا جِسمانی وِصال کے نکال دی۔ اب بھلا کیونکر ایسا کریگی؟پر یہ تنہائی یہ جان لیوا تنہائی؟ اِسکا کیا علاج کرے؟اورمن پھراُڑنے لگا ”مجھے تو کوئی گُھمانے والا شوہر چاہیئے، جِسے دیس بِدیس گُھومنے کا شوق ہو۔ جِسکے پاس گاڑی ہو اورشوق بھی اوروہ دونوں خوب دُوردُور گھومنے جائیں، اُسکے کندھے پرسررکھ کررتنا اپنا سارا دُکھ بھول جائیگی۔ اُسکی بانہوں کا گھیرا رتنا کو ہرمُشکِل سے بچا لیگا۔ اُسکا مضبوط ہاتھ جب رتنا کے ہاتھ کو اپنی گِرفت میں لیگا تو رتنا کی ہر فکر بھاگ جائے گی۔

وہ ایسا محسُوس کرےگی جیسے اچانک پھر سے ساری دُنیا رنگ بھری اور خوشنما ہو گئی ہے۔ بس تب رتنا کی ساری مُرادیں پُوری ہو جائینگی اور وہ تب خُوشی خُوشی مر سکتی ہے۔ ورنہ، ورنہ بہت کچھ ادُھورا اورناتمام رہ جائیگا!”پراُسکے اِس سویمبر کے رچاؤ میں ایک بھی براُسے اچھا نہیں لگا۔ آنے کو ابھی اور بھی جواب آ سکتے تھے۔ اِشتہار دُوبارہ بھی دِیا جا سکتا تھا۔ پرایک کراہِیت سے رتنا نے تصویروں کو پرے دھکیل دیا۔ ”واٹ نانسینس یہ کیا کر رہی ہوں، میں ”اُس کی ساری زِندگی کے منصوبے تو بیٹے کی زِندگی کے منصوبوں کے اِرد گرد ہی بنے تھے؟ بیس میں ڈاکٹر بن جائے گا۔ پھر دو سال ریزیڈینسی کے بعد شادی کریگی اُسکی۔ اِس بیچ وہ اپنی بینک کی نوکری کرتی رہے گی۔ جب اُسے ریزیڈینسی ختم کرنے کے بعد ڈھنگ کی نوکری مِل جائیگی تب وہ بھی بینک سے مُستعفی ہو جائے گی۔ اِس بیچ پوتے پوتی بھی آ جا ئیں گے۔ تب بیٹے کے پاس رہنے چلی جائیگی۔ یہ منصوبے ماں بیٹے نے ساتھ ساتھ بنائے تھے اور سب کچھ منصوبے کے مُطابِق ہی ہوتا رہا تھا۔ بس ایک ہی جگہ گڑبڑ ہوئی۔گڑبڑ ہوئی تو سارے کا سارامنصوبہ ہی کھڈے میں پڑ گیا۔

جو کچھ بھی ماں بیٹا چاہیں وہ ہویہ تو ضروری نہیں ہے کیوں کہ شادی والے پڑاؤ کے بعد سے دو نہیں تین کی رائے کو درمیان میں رکھنا وہ دونوں بھول گئے بہو کے مستقبل کے منصوبے میں رتنا کی شراکت نہیں تھی سو اب سارا مسئلہ یہیں آکر کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔رتنا پہلے شوہر پھر ہمیشہ بچّوں کے ساتھ ہی رہی۔اب کیا کرے؟ کسی کے تو ساتھ رہنا ہے؟بیٹیوں کے ساتھ رہنا ماؤں کو منظور ہو بھی جائے تو دامادوں کو راس نہیں آتا۔ پھر دستورتو یہی رہا ہے کہ ماں بیٹے کے پاس رہیگی۔ کہاں غلطی ہو گئی رتنا سے؟ کیا کمی کر دی اُسنے، کسِ طرح بڑا کیا کہ آج بیٹا اِتنا پرایا ہوگیا۔ ساس بہو کے رشتوں کے تناؤ کوئی نئی بات تو نہیں۔ سبھی گھروں میں ایسا ہوتا ہے۔ پراِس سے کیا کوئی ماں کو گھر میں نہیں رکھتا؟دُوسرے رِشتہ داروں کے یہاں تو مٹّی پلید کروانے والی ہی بات ہے۔یہ توکوئی طریقہ نہ ہوا رہنے کا؟

ساری عمرتوہاری نہیں تھی۔ لڑتی رہی حالات سے۔ اب ایک دم پست سی ہو رہی ہے۔ لگتا ہے جسکے لیے زندگی گزار رہی تھی۔ اب اُسکی زندگی کا حِصّہ نہ ہونے پر سب کچھ بیکارہو گیا ہے، ایک دم بے معنی!اور اِس بے معنویت میں سے جو فیصلہ اُس نے ڈُھوند نِکالا تھا وہ تھا ایک دُوسرے مرد کی رفاقت جو ایک مضحکہ خیز، ایک ہولناک مذاق بن کر پھیل گیا تھا اُسکے آس پاس۔اُسے اپنے آپ ایک نفرت اور کراہیت سی ہو جارہی تھی۔یہی سوجھا تھا، بس آ گئی دُوسروں کی باتوں میں۔ جو قسم عُمر بھر کی تھی اُسے یوں ہی توڑنے کو تیار ہو گئی۔ جب جوان تھی تب تو شادی کی نہیں۔ اب چلی ہے اپنی قسم توڑنے! تضحیک کا سامان بننے۔ کیا کوئی خُودداری نہیں ہے اُسکی؟ ایسے لگا جیسے وہ اپنی نیلامی کر رہی ہے – ایک لاوارث عورت ہو گئی ہے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ کسی سے جوابدہی نہیں۔لاوارث عورت جو لاچاری میں آوارہ پن پر تُل گئی ہے۔کیا بدلا لینا چاہ رہی تھی سب سے؟ تُم اوروں کے ہو گئے تو میں بھی کسی کی ہو جاؤنگی۔ بس یہی طریقہ رہ گیا ہے اُسکے پاس؟ کوئی اپنا نہ رہا تو یہ اپنی قسمت سہی، پر یہ تو ضروری نہیں کہ اپنوں کی کمی کو اِس طرح پورا کرے وہ۔یہ سوچ ہی پریشان کر رہی ہے رتنا کو کہ کیسے کر پائی وہ یہ سب؟پھرایک عجیب سا خیال آیا تھاکیا یہ اشتہار ہی بھیج دے سب کو؟ یا جُھوٹھ مُوٹھ کا شادی کا کارڈ؟ پھرجیسے ہوش میں آگئی، نہیں، کتنی ناگوار بات ہوگی؟

پتہ نہیں کیا پاگل پن سا سوار ہو رہا تھا رتنا پر۔ تُو نے ایسا کیوں، کیوں کیا رتنا۔ پرتاپ کمار کی روح کو بھی کتنی تکلیف پہنچ رہی ہوگی! ایسی تذلیل ایسی بے عِزّتی! اپنے اکلوتے کمرے کے اپارٹمینٹ میں اچانک پھپھک پھپھک کر رو رہی تھی رتنا، اخبار کی تصویروں کی چِندیاں چِندیاں کئے جا رہی تھی۔ سسکیوں کے بیچ بڑبڑاتی جاتی،دیکھو سب – دیکھو میرا حال دیکھتے کیوں نہیں؟ قسمت نے مجھے اس حد تک لا دیا، کیوں سب موت کی طرح خاموش ہو گئے ہے، کسی کو میری ضرورت ہی نہیں رہی۔ ”اپنے اس حال کے لیے کسِ کو دوش دوں میں، بتا ؤنا؟ کِس کو؟ قسمت کو یا خُود کو؟”سارے کمرے میں اخبار کی چِندیاں پھیلی ہوئی تھیں اور رتنا زمین پر اُنکے بیچ گُھٹنے پر سر ٹِکائےاِس طرح بیٹھی ہوئی تھی جیسے پہلی باربیوہ ہوئی ہو!پہلی بار اپنے شوہر کی موت کا ماتم منا رہی ہو!

نوٹ: تحریر بھارتی اردو میں ہے ۔ جہاں کچھ الفاظ پاکستانی رائج شدہ اردو سے مختلف ہیں۔