ندیم رضا، بیورو چیف ،دی سپرلیڈ ڈاٹ کام، واشنگٹن ڈی سی۔ کیا کوئی ایسا ملک ہوگا جو پاکستان کے وزیراعظم کو اقتدار سے نکلنے کی تحریری دھمکی دے گا؟وزیراعظم کے جلسے کے بعدنئی بحث چھڑ گئی ۔
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے جلسے کے اختتامی مراحل میں ایک خط جیب سے نکال کر لہرا دیا اور ڈرامائی انداز میں دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش ہو رہی ہے ۔ باہر سے پیسہ آرہا ہے جبکہ مقامی لوگ آلہ کار بن رہے ہیں ۔ وزیراعظم نے کہا ہمیں کئی ماہ سے اس سازش کامعلوم ہے ۔ ملک کے اندر موجود لوگوں کی مدد سے حکومتیں تبدیل کی جاتی ہیں ۔ ہماری خارجہ پالیسی کو باہر سے متاثر کیا جارہا ہے ۔ ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے میرے پاس جو خط ہے وہ ہی ثبوت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ بلاول اپنے نانا کو پھانسی دلوانے والوں کے ساتھ مل چکے ہیں ۔ یہ اپنے نانا کی نام پر ہی سیاست کرتے ہیں مگر ان کو سزا دلوانے والوں کے ساتھ ہی مل چکے ہیں ۔ عمران خان نے اس سے قبل ایک مرتبہ پھر اپوزیشن رہنماؤں کو چور اور روایتی القابات سے پکارا۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل ، شہباز شریف کو چیری بلاسم والا، زرداری کو بیماری اورنواز شریف کو بھگوڑا کہا ۔
وزیراعظم کے خطاب کے بعد ملک میں گرما گرم بحث جاری ہے کہ آخر کیا کوئی ایسا ملک ہوگا جو
پاکستان کے وزیراعظم کو اقتدار سے نکلنے کی تحریری دھمکی دے گا ؟
ایسی کونسی حساس دستاویز ہوسکتی ہیں جنہیں جلسے میں لہرایا تو جا سکے مگر پڑھایا نہ جا سکے ؟
لاس ویگاس میں مقیم تھنک ٹینک ڈویلپمنٹ اینڈ پیس کے سربراہ شاہد معظم اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ دی سپرلیڈ ڈاٹ کام سے ٹیلی فونک گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان کا اشارہ امریکا کی جانب ہے تو یہ ایک مضحکہ خیز اور من گھڑت الزام سے کم نہیں ۔ امریکا کبھی بھی کسی بھی من پسند حکمران کو ایسے تحریری دھمکی نہیں دے سکتا۔ یہ عمران خان کا بڑا الزام ہے اور ان پر یہ فرض ہے کہ وہ حقائق اپنی قوم کے سامنے پیش کریں ۔ ایسا کوئی حساس مسودہ نہیں ہو سکتا جو جلسے میں فقط لہرایا تو جا سکتا ہو مگر پڑھایا نہ جا سکے۔عمران خان کی حکومت مشکلات کا شکار رہی ہے مگر عالمی ممالک کو اندرونی معاملات سے منسوب کرنا ایک مفروضہ ہی ہو سکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ سچ سامنے آچکا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی مرضی سے حکومت سازی میں کردار ادا کرتی رہی ہے جس کا انکشاف متعدد مواقع پر کئی پاکستانی سیاستدان کر چکے ہیں مگر یہ کردار کبھی بھی واضح نہیں ہو پایا نہ ہی تحریری مسودے کی شکل میں سامنےآتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ویسے ہی خود کہہ چکے ہیں اس وقت مائنڈ کی گیم چل رہی ہے ایسے میں گرتی حکومت بچانے کے لئے یہ ایک سیاسی حربہ ہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم یورپی یونین کا لکھا جانے والا خط لہرا رہے ہوں مگر اسے کسی صورت دھمکی قرار نہیں دیا جاسکتا۔