دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، واشنگٹن ڈی سی ۔ طالبان کا پر تشدد ایجنڈا، خواتین کی تعلیم پر پابندی ، عمران خان کیسے دنیا کو قائل کر لیں گے ؟
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق افغان طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد نوے کی دہائی جیسی سزائیں بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ طالبان نے فی الوقت خواتین کو ملازمتوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے تعلیم پر مکمل پابندی لگا دی ہے اگرچہ طالبان رہنماؤں نے وعدہ کر رکھاہے کہ وہ مخلوط کے بجائے لڑکیوں کی الگ تعلیم کے حامی ہیں اور جلد نظام تعلیم وضع کر کے لڑکیوں کے سکول کھول دیں گے ۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان مسلسل دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان کو وقت دیا جائے وہ اپنے تمام امور جائز طریقے سے آگے بڑھائیں گے ۔ کیا عمران خان دنیا کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام واشنگٹن ڈی سی کے بیورو چیف ندیم رضا نے اس سلسلے میں ماہر افغان امور ڈاکٹر سہیل کاظمی سے ٹیلی فونک گفتگو کی ۔ انہوں نے اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ طالبان نوے کی دہائی کے ادھورے مشن ہی پورے کرنے آئے ہیں ۔ اگرچہ اب طالبان کی نئی نسل پروان چڑھ چکی ہے ۔ تھکا دینے والی جنگ اور روپوشی کی طویل زندگی نے نوجوان قیادت کو بھی سامنے آنے کا موقع دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوے کی دہائی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نئے رجحانات متعارف ہو چکے ہیں ۔ مثال کے طور پر طالبان اب عالمی دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں ۔ غیر اسلامی یا ان کے نزدیک کفار کی مالی مدد لینے میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ طالبان ترجمان سہیل شاہین متعدد مرتبہ عالمی امداد کی اپیل کر چکے ہیں ۔ اس سےپہلے غیر اسلامی ممالک سے تعلقات رکھنا جائز نہیں سمجھا جا تا تھا۔ مفادات اور طرز حکمرانی میں اس قدر تبدیلی آچکی ہے کہ طالبان امریکا کے ساتھ بھی مل کر چلنے کو تیار ہیں مگر اس کے بدلے وہ فنڈنگ چاہتے ہیں ۔
طالبان کی سینئر قیادت سخت گیر مذہبی ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی
انہوں نے کہا کہ ان حالات میں طالبان کی سینئر قیادت بھی ساتھ ساتھ اپنے سخت گیر ایجنڈے کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ یہ سینئر قیادت مذہبی طور پر سخت ترین خیالات کی حامل ہے ۔ اس مخصوص مائنڈ سیٹ کی موجودگی میں اگر کوئی یہ سمجھے کہ طالبان سو فیصد بدل چکے ہیں تو یہ غلط ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان شاید حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگا پائے یا پھر وہ نظریاتی طور پر طالبان سے سو فیصد مثبت کی امید لگا بیٹھے ہیں۔ طالبان کا بدلنا مشکل ہے اور یہ بیرونی دنیا بھانپ چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور روس بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ مگر اس وقت وزیراعظم پاکستان وہ واحد شخصیت ہیں جو طالبان کی حمایت میں کبھی ڈھکے چھپے تو کبھی واضح بیانات دے کر پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے طالبان کی حمایت کیا مسائل پیدا کر سکتی ہے ؟
انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ ہم نے دیکھا سکائی نیوز ، بی بی سی ا ور سی این این کو انٹرویو میں انہوں نے طالبان کی کھل کر حمایت کی مگر ساتھ ہی کچھ مثبت امور کی بھی امید لگائی ۔ فرض کریں کہ طالبان اپنے روایتی انداز سے پیچھے نہیں ہٹتے تو سوچیں دنیا وزیراعظم پاکستان کو کس نگاہ سے دیکھے گی ؟بظاہر یہی کچھ نظر آرہا ہے ، آئندہ آنے والے دن ہولناک ہو سکتے ہیں ۔ طالبان نے اگر خواتین کو مساوی حقوق نہ دیئے ، مذہبی سخت گیری نہ چھوڑی تو پاکستان کے لئے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے بہتر ہے عمران خان کھلے عام حمایت سے گریز کریں اور باقی ممالک کی طرح دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی کو اپنائیں ۔