ندیم رضا، دی سپرلیڈ ڈاٹ کام ، واشنگٹن ڈی سی ۔ پاکستان کی او آئی سی کانفرنس میں افغانستان کی مدد کی لابنگ ، دوسری جانب طالبان کا ایک مرتبہ پھر لڑکیوں کو سکول بھیجنے سے انکار ، کیا پاکستان کی پالیسی درست سمت میں گامزن ہے ؟
دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق طالبان نے ایک مرتبہ پھر لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے انکار کر دیا۔افغانستان میں طالبان نے لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دینے کا اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے واضح کیا کہ ابھی لڑکیوں کے یونیفارم کے ڈیزائن کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ سال اگست کے بعد طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔ کئی ماہ تک بند رہنے کے بعد آج لڑکیوں کے سکول کھولے جانے تھے تاہم طالبان کی وزارتِ تعلیم کی جانب سے ایک نیا اعلامیہ آگیا ہے جس میں لڑکیوں کو فی الحال گھر ہی رہنے کا کہا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ لڑکیوں نے سکول جانے کی تیاری کر رکھی تھی مگر نئے حکم نامے کے بعد ہر طرف مایوسی پھیل گئی ۔ والدین نے طالبان کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا ہے جبکہ کئی لڑکیاں سکول پر پابندی کا سن کر رو پڑیں ۔
طالبان کی طرف سے جاری تازہ ترین نوٹس میں کہا گیا ہے کہ تمام لڑکیوں کے ہائی سکولوں اور ان سکولوں جن میں چھٹی جماعت سے سنیئر لڑکیاں پڑھتی ہیں، ہم انہیں مطلع کرتے ہیں کہ اگلے حکم نامے تک وہ بند رہیں۔ افغان روایات اور شرعی قوانین کے مطابق لڑکیوں کے یونیفارم کا نیا ڈیزائن تیار ہوگا جس کے بعد سکول دوبارہ کھول دیئے جائیں گے ۔
واضح رہے کہ طالبان نے سنہ 1996 سے 2001 کے درمیان اپنے پہلے دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی جبکہ حالیہ دور میں بھی ایسا ہی کیا گیا تاہم طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ مناسب انتظامات کے بعد لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت ہوگی مگر ڈیڈ لائن پوری ہونے کے باوجود سکولوں میں جانے کی اجازت نہ ملی ۔ اس پابندی پر امریکا سمیت کئی ممالک نے تنقید کرتے ہوئے طالبان کی پالیسی کو مستقبل کے لئے خطرناک قرار دیا تھا ۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے طالبان کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائیں گے
طالبان کی نئی پابندیوں کے بعد پاکستان کا موقف کمزور پڑنے لگا
اسلام آباد میں ہونے والی او آئی سی کانفرنس کے ایجنڈے میں افغانستان کی صورتحال بھی شامل تھی ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کےلئے انسانی مدد کی ضرورت پر زور دیا جبکہ وزیراعظم نے اپنے افتتاحی خطاب میں خصوصی طور پر افغانستان کی مدد کی بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی مدد کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ۔ سفارتی حلقوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان ہر صورت افغان حکومت کی مدد کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا چاہتا ہے تاہم طالبان کا رویہ بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔ لڑکیوں کی بنیادی تعلیم پر پابندی جیسے عوام پاکستان کا موقف بھی عالمی سطح پر کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔