صدارتی ریفرنس اور بار کی پٹیشن کو کیسے یکجا کیا جاسکتا  ہے ؟جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے چیف جسٹس کو احتجاجی خط لکھ کر تاریخ رقم کردی

وقت اشاعت :23مارچ2022

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، اسلام آباد۔ صدارتی ریفرنس اور بار کی پٹیشن کو کیسے یکجا کیا جاسکتا  ہے ؟جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے چیف جسٹس کو احتجاجی خط لکھ کر تاریخ رقم کردی

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے گئے لارجر بینچ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو احتجاجی خط لکھ دیا  ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو کیسے یکجا کیا جاسکتا ہے جبکہ اس وقت تو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا۔

 خط میں لکھاگیا کہ سپریم کورٹ بار کی ہفتے کے روز درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم سامنے آیا ہے ۔ حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو اکٹھا کر کے نہیں سنا جا سکتااس حوالے سے آئین بہت واضح ہے ۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔ درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کرنے کا کوئی قانونی  جواز نہیں پیش کیا جاسکتا ۔ درخواست 184/3 کے اختیار سماعت میں سنی جا رہی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیار سماعت ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے جس میں چوتھے، آٹھویں اور تیرھویں نمبرکے فاضل ججز کو شامل کیا گیا۔  ایسا کرکے آپ نے اپنے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کی ۔  اہم آئینی معاملات کی سماعت کے لیے سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینےکا صوابدیدی اختیار طے کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے طے کیا  تھا کہ سینئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گامگر اس مرتبہ حیرت ہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ ایک ایسا معاملہ جس پر پوری قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے۔  جج کا حلف کہتا ہے وہ اپنے فرائض منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا، کہاوت ہے کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا نظربھی آئے، کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطہ اخلاق میں پانچویں نمبر میں بھی درج ہے۔

سپریم کورٹ کا رجسٹرار وزیراعظم ہاؤس سے امپورٹ شدہ ہے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف،  مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے۔جناب چیف جسٹس۔۔ کئی مرتبہ آپ کو تحریری طور پر مطلع کر چکا ہوں، ایک بیوروکریٹ کو وزیراعظم ہاؤس سے درآمد کرکے رجسٹرار تعینات کیا گیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے قراردادِ مقاصد اور آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان مکمل طور پر علیحدگی ہو گی، اس لیے ریاست کے انتظامی ستون کے کسی افسر کو بطور رجسٹرار نہیں تعینات کیا جا سکتا۔ عام تاثرہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہو، میری رائے میں رجسٹرار کی تقرری عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کے آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس صاحب میں نے یہ خط لکھتے وقت دو مرتبہ سوچا تاہم آئین کے آرٹیکل175/3سینئر ترین جج کا ذکر کرتا ہے ۔  

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک مجھےعلم ہے آپ کے تمام سابق چیف جسٹس سینئر ترین جج سے مشاورت کرتے تھے۔ چیف جسٹس صاحب، آپ نے اس روایت کو بھی ختم کر دیا جس کے ادارے پر برےاثرات مرتب ہوں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف  پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل نہیں۔