قاسم چوہان ،دی سپر لیڈ ، کراچی یہ کراچی نگری ہے صاحب ،یہاں سب خود کرنا پڑتا ہے ۔ شہر قائد کے باسی نہ گھبراتے ہیں نہ پریشان ہوتےہیں ۔ قسمت میں ہی کچھ ایسے مسائل لکھے ہیں ۔
کراچی میں حالیہ سپیل کی بارش کی اوسط دیکھی جائے تو 110ملی میٹر بنتی ہے ۔
سب سے زیادہ بارش 223ملی میٹر فیصل بیس پر ریکارڈ کی گئی ۔ اسی طرح دیگر علاقے مکمل ڈوبے پڑے ہیں ۔
ایسے میں سب سے پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ حکومت کہا ں ہے ؟ کراچی کا سیوریج سسٹم ستر کی دہائی سے اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ جہاں کیا گیا وہاں حفاظتی اقدامات اور پلان بی مد نظر نہیں رکھا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ شہر کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو بارش کے پانی کا دباؤ برداشت کر سکے ۔شہری امور کے اعداد و شمار اور ماہرین کے مطابق کراچی کے ماسٹر پلان پر عمل نہیں کیا گیا۔
بعض سیاسی جماعتوں نے غیر قانونی اقدامات پر آنکھیں بند رکھیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے چلے گئے ۔
کسی نے یہ سوچا ہی نہیں کہ نالے اگر صاف نہیں ہوں گے تو سیلاب کی صورت میں پانی کا گزر کیسے ہوگا۔
قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گنجان آباد علاقوں میں مزید تعمیرات کی اجازت دی گئی ۔
شہر قائد کی تباہی کو دیکھ کر گمان ہوتاہے کہ جیسے یہ دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہونے والا یہ شہر بغیر کسی منصوبہ بندی کے یومیہ بنیادوں پر چل رہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے موقف کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر ملتا ہے کہ وفاق بھی نظریں چراتا رہا ہے ۔
کراچی والے مسائل کو قسمت کا حصہ سمجھتے ہیں
دوسری جانب شہری ان حالات کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اسے اپنی قسمت کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح اس شہر میں ہیٹ ویو ہو یا اربن فلڈ ۔۔ شہری حکومت سے نالاں ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
اگر بدترین لوڈ شیڈنگ ہو تو شہری گلیوں ، سڑکوں ، چھتوں پر رات تو گزار دیتے ہیں مگر اسے اپنی قسمت کا کھیل بھی سمجھتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیئے:کراچی میں بارشوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے
حالیہ بارشوں میں میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ اپنا کام کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے ۔
زیادہ تر شہری اپنی مدد آپ کے تحت پانی کے ریلوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہے ۔
پولیس سڑکوں پر مدد کرتی دیکھی گئی مگر شہر کے بہت بڑے سیلاب سے نمنٹے کےلئے ایک بڑی فوج درکار تھی ۔
ایسے میں یہی نعرہ سننے کو ملتا ہے ۔۔ یہ کراچی نگری ہے ،یہاں سب خود کرنا پڑتا ہے ۔