دی سپر لیڈ ، اسلام آباد ۔ وزیراعظم کی فوجی بغاوت پرکھل کربات، پردےکےپیچھےکیاچل رہاہے؟ پاکستان کے ایک چینل سما نیوز کو انٹرویو میں عمران خان نے حساس معاملات پر بھی کھل کر بات کر دی ۔
انٹرویو میں پروگرام اینکر ندیم ملک نے نوازشریف کے بیانیہ پر سوالات کئے ۔ لیکن عمران خان نے پہلی دفعہ عسکری معاملات پر کھل کر بات کی ۔ایسے جملے بھی بول گئے جس کی کوئی بھی وزیراعظم سے امید نہ کر رہا تھا۔ عمران خان نے موجودہ اور سابق عسکری قیادت کے طرز عمل پر اپنے موقف سے آگاہ کیا ۔ وزیراعظم کا رویہ بعض اوقات جارحانہ ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرے دور حکومت میں کوئی آرمی چیف میرے سے پوچھے بغیر کارگل پر حملہ کرتا تو میں اسے فوری فارغ کر دیتا ۔
انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ فوج کا کام ملک چلانا نہیں ہوتا۔ اگر جمہوری نظام ٹھیک نہ چل رہا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی جگہ مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے ۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جمہوری نظام میں خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کام کیا جائے ۔
عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہے ۔ اور ہمارا ماضی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ فوج کا کام ملک چلانا نہیں ۔ اس موقع پر عمران خان نے نواز شریف پر براہ راست تنقید بھی کی ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو سیاستدان جرنیلوں نے ہی بنایا ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا میں جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے ایسا کہے تو میں اس سے فوری طور پر استعفے کا مطالبہ کروں گا۔ میں ملک کا وزیراعظم ہوں اور کس کی جرات کہ مجھے آ کر ایسا کہے۔
چوروں کو ایک ایک کر کے جیل میں ڈالوں گا، عمران خان
وزیراعظم نے کہا کہ ان چوروں کو ایک ایک کر کے جیل میں بند کروں گا۔اگر اپوزیشن کا دباؤ برداشت کر گئے تو پاکستان کامیاب ریاست بن جائے گا۔یہ لوگ کرپشن کرنے ہی حکومت میں آتے ہیں ۔ ملک کو بے دردی سے لوٹا گیا۔احتجاج اپوزیشن کا حق ہے ۔ عمران خان نے گلگت بلتستان امور پر بلائی گئی میٹنگ پر انکشاف کیا کہ اپوزیشن سے میٹنگ سے پہلے آرمی چیف کی مجھ سے ملاقات ہوئی ۔ میری ہی اجازت سے یہ میٹنگ ہوئی ۔ پاک فوج نہ ہوتی تو ملک تین ٹکڑے ہو جاتا۔
نوازشریف کا کھیل خطرناک ہے ۔بانی متحدہ نے بھی یہی کیا ۔نوازشریف کے پیچھے بھارت ہے ۔نوازشریف کی کسی آرمی چیف سے کبھی نہیں بنی ۔یہ فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔پاک فوج میری پالیسیوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔واحد سیاستدان ہوں جو فوج کی نرسری میں پل کر نہیں آیا ۔ کوئی ایک ایشو ایسا بتا دیں جس میں فوج نے میری مخالفت کی ہو؟ کشمیر کے معاملے پر عسکری اور سیاسی قیادت کی پالیسی ایک ہے ۔
عمران خان نے اپنے اس تفصیلی انٹرویو میں صحافیوں کی جبری گمشدگی کا بھی ذکر کیا اور واضح کیا ان گمشدگیوں میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سے کیا فائدہ ؟
عمران خان کا جارحانہ رویہ کس طرف اشارہ؟
عمران خان کے اس اہم ترین انٹرویو سے سوال ہی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو اپنے عسکری قیادت سے تعلقات کی وضاحت دینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟ ساتھ ہی عمران خان نے کیوں بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت کے عسکری قیادت کے ساتھ تعلقات بہترین ہیں ۔ مزید یہ کہ وہ سلیکٹڈ نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے آئے ؟
یہ بھی پڑھیئے: ظہیر الاسلام نے مارشل لا کی دھمکی دی تھی ، نوازشریف
سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں سینئر تجزیہ کار خالد چودھری نے کہا کہ بظاہر عمران خان نے اسی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی جماعت کو لایا نہیں گیا بلکہ وہ خود جمہوری طریقے سے آئے ہیں ۔ عمران خان نے بعض سوالات کے جواب جارحانہ موڈ میں دیئے جو طے شدہ سکرپٹ کا حصہ ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ عمران خان پر آج کل بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں ۔
اپوزیشن نے سلیکٹڈ کا طعنہ دینا کم نہیں کیا ۔ بلکہ نوازشریف کی حالیہ تقاریر کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ایک ہی بحث چھڑ ی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر عسکری قیادت اور عمران خان میں کوئی تناؤ نہیں لیکن عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ ہوتے تو کارگل پر بغیر اجازت حملہ کرنے پر آرمی چیف کو برطرف کردیتے ۔۔ آسانی سے ہضم نہیں ہونے والا۔ نوازشریف کا بھی تو یہی موقف ہے کہ جرنیلوں نے حکومت چلنے ہی نہیں دی ۔
اسی طرح نوازشریف کی جرنیلوں سے نہیں بن پائی اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ نوازشریف سول بالادستی اور تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس رہنے کے خواہاں رہے ہیں ۔ ایسے میں عمران خان کی منظر نامے میں بھرپور انٹری سوالات کو بھی جنم دیتی ہے ۔یعنی وزیراعظم کی فوجی بغاوت پرکھل کربات، پردےکےپیچھےکیاچل رہاہے؟
One Comment