سردی کے موسم میں کے ٹو سر کرنا کیوں مشکل ہے ؟ نیپالی کوہ پیماؤں نے پہلی بار موسم سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر تو کرلی جس سے پاکستانی چوٹی پھر شہ سرخیوں میں آگئی ۔
نیپالی کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کرکے تاریخ رقم کردی۔ آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر بلند چوٹی تک پہنچنے کیلئے 26دن لگے۔ یاد رہے کہ کے ٹو کو دنیا کی ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے ۔ پاکستانی پہاڑ کوسرکرنے میں اب تک 86 کوہ پیما اپنی جان گنواچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس چوٹی کو سردیوں میں سر نہیں کیا جا سکا۔امریکا ، کینیڈا، برطانیہ ،نیپال اور پاکستان کے کوہ پیما سردیوں کے موسم میں چوٹی تک پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہو چکےہیں ۔ سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت عام طور پر منفی پچاس سے ساٹھ ڈگری تک جاتا ہے ۔
سردیوں میں اوپر جا کرواپس آنے کی گارنٹی انتہائی معدوم
برفانی طوفان اور جھکڑمعمول کی بات ہے ۔ کوہ پیمائی سے وابستہ افراد مانتے ہیں کہ سردیوں میں اوپر جانا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی مترادف ہے کیونکہ واپسی کی گارنٹی ہے نہ اوپر جانے کی ۔ موجودہ ٹیم نے کامیابی سے بیس کیمپ تک واپسی اختیار کی ۔ کے ٹو بیس کیمپ سے واپسی پر برفانی دراڑ میں گرکر ہسپانوی کوہ پیما ہلاک بھی ہو گیا ہے جس پر ٹیم نے اظہار افسوس کیا ہے ۔
چوٹی سر کرنے والی 10 رکنی ٹیم کے لیڈر کاکہناہے کہ منفی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں سخت موسمی حالات اور حادثات سے بچنا معجزہ ہے،، 21 دسمبر سے شروع ہونے والا سفر مکمل ہونے میں ٹیم کو 26 دن لگے۔ کے ٹو کو سیویج ماؤنٹین بھی کہا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے نیپالی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا ۔ یو ں یہ واقعہ ٹویٹرپر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔