عاطف رشید ،اسلام آباد ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام۔سپر لیڈ نیوز کے مطابق گزشتہ دنوں معروف سائنسدان ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنے یوٹیوب چینل سے ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایک خط منظر عام پر لے آئے جس میں انہوں نےو اضح انداز میں عسکری حلقوں پر کڑی تنقیدکی اور ایٹمی پروگرام کی مخالفت کی تھی ۔
ڈاکٹر قدیر خان کے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کولکھے گئے خط نے سوشل میڈیا پر نئی بحث کو جنم دیا ہے ۔ اس خط سے عیاں ہوا کہ ڈاکٹر قدیر خان مجبوری کی وجہ سے ایٹمی پروگرام چلارہے تھے اور ایٹمی بم سے خطے میں ہتھیاروں کی جنگ سے گریز کی پالیسی پر کاربند تھے ۔
ڈاکٹر عبد القدیر ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے نالاں ؟
ڈاکٹر عبد القدیر خان ان دنوں اپنی این جی او چلا رہے ہیں جبکہ میڈیا پر ایٹمی پروگرام کے حوالےسے بات نہ کرنے کی پالیسی پر تاحال انحصار کرنے پر مجبور ہیں ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو محسن پاکستان کے لقب سے نوازا گیا ہے جبکہ ان کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ محسن پاکستان نہ تو میڈیا پر آتے ہیں اور نہ ہی ایٹمی پروگرام کی بہتری کے لئے کسی بھی فورم پر کوئی تجویز دیتے نظر آتے ہیں ۔چند ایک تقریبات میں انکے محدود لیکچر ز بھی شاز و نادر ہی منظر عام پر آتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے سماجی روابط بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ آخر اندر کی کہانی کیا ہے ؟
ڈاکٹر قدیر خان کی قید جیسی زندگی
ڈاکٹر قدیر خان تاحال کڑے پہرے میں ہیں ۔ نمائندہ سپر لیڈ نیوز سے خصوصی گفتگو میں ان کی این جی او کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سب کہانی بیان کردی ۔ عہدیدار نے بتایا کہ ایٹمی رازوں کی چوری کے سکینڈل میں ان کو قصور وار قرار دیئے جانے کے بعد سے اب تک ڈاکٹر قدیر خان قید جیسی زندگی گزار رہےہیں ۔ ان کے ہر کام پر گہری نظر رکھی جاتی ہے ۔ وہ بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو نہیں دے سکتے ۔ کسی بھی تقریب میں شرکت کے لئے ان کو پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے ۔ ایٹمی پروگرام پر تو بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں وہ ایٹمی پروگرام کی افادیت بتا دیں وہ سکرپٹ کا حصہ ہوتا ہے ۔ ان کی این جی او کے تمام معاملات ایجنسیوں کی نظر میں ہیں ۔ یہاں تک کے ڈاکٹر صاحب کے قریبی افراد بھی سکیورٹی ایجنسیوں کی نظر میں ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان ایک آزا د پاکستانی شہری ہیں ان کو ڈھیروں سرکاری مراعات حاصل ہیں مگر وہ حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ڈیل کے تحت ان کو گرفتار کرکے پابند سلاسل رکھنے کے بجائے زبان بندی کی شرط پر آزاد چھوڑا گیا ہے ۔
عدالتیں بھی بے بس ؟
واضح رہے کہ حکومتی پابندیوں کے خلاف ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا مگر ان کو کوئی ریلیف نہ ملا۔ اپنی درخواست میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے ہی ملک میں قید جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جینا مرنا پاکستان کے لئے ہے پھر بھی کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ وہ تعلیمی اداروں میں لیکچر دینا چاہتے ہیں مگر ان پر پابندیاں ہیں ۔
گزشتہ سال دائر درخواست پر سپریم کورٹ نے انہیں طلب کرلیا تھا مگر انہیں کمرہ عدالت ہی پیش نہ کیا گیا۔ اس وقت ایک خفیہ ایجنسی کے عہدیدار نے وکیل سے بھی ملاقات نہ کرانے دی ۔ ذرائع کے مطابق معزز جج صاحبان نے سب جانتے ہوئے بھی ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں انڈی پینڈنٹ کی نامہ نگار مونا خان نے تصدیق کی کہ گزشتہ سال ڈاکٹر عبد القدیر خان نے شخصی آزادی کی ایک درخواست سپریم کورٹ دائر کی تھی جس میں انہوں نے پابندیاں ختم کرنے کی استدعا کی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ قدیر خان آزاد شہری نہیں ہیں مسلسل پابندیوں سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں ۔ بعض حلقے ان کی زبان بندی چاہتے ہیں تاکہ اہم راز ملکی سطح پر گردش نہ کر پائیں اور کچھ کردار بے نقاب نہ ہو جائیں ۔