کاسئہ گدائی بڑھ چڑھ کر پھیلانے والوں کو داد دئیے بغیرنہیں رہا جاسکتا کہ وہ ’’سفارتی مداخلت‘‘ کے سخت بیان پر اپنے عشاق کے قافلوں کو قومی خود مختاری و خودداری کی خلاف ورزی پر اکسائیں اور یہ بھلاتے ہوئے کہ 43 ماہ کی کپتانی میں قومی گداگری اور نااہلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے۔
پاکستان نے 1947-2018 کے 71 برسوں میں 30 کھرب روپے کے قرضے لیے، جبکہ عمران حکومت نے ساڑھے تین برس (2018-2022) میں 22 کھرب روپے کے قرضوں کا بوجھ قوم پہ لادا اور یہ حکومت اگرمدت پوری کرتی تو پانچ برس میں 71برس کے قرضوں کا ریکارڈ توڑ دیتی۔
ظاہر یہ کیا گیا کہ بیچارہ کپتان تو گزشتہ حکومتوں کے قرض اُتارتا رہا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 57ارب ڈالرز کے قرضوں میں سے 26ارب ڈالرز سابقہ قرضوں کی قسطوں میں ادا ہوئے تو 31 ارب ڈالرز اپنے چالو خرچوں کے لیے ادھار لیے گئے جس میں اوورسیز پاکستانیوں کا سب سے مہنگا روشن پاکستان اکائونٹ سر فہرست ہے۔
زر مبادلہ کے ذخائر اب 10.8 ارب ڈالرز ہیں اور ان میں سے اگر سعودیہ عرب، امارات، چین اور آئی ایم ایف کے ڈالرز نکال دئیے جائیں تو کشکول بالکل خالی ہوجاتا ہے۔ اور مہنگائی ہے کہ اس وقت بھی 15فیصد سے اوپر ہے اور وافر صلاحیت کے باوجود لوڈشیڈنگ عروج پر ہے۔
سابق وزرائے خزانہ اسد عمر، حفیظ شیخ، شوکت ترین اور اب ن لیگ کے مفتاح اسماعیل اسی عطار کے لونڈے سے نسخہ مالیات لینے گئے ہیں جس کے سبب پاکستانی معیشت مستقلاً جان کنی کے عالم میں ہے۔
متحدہ مخلوط حکومت نے اگر جون 2022ء تک 12ارب ڈالرز کے مزید قرضے نہ لیے تو ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کی وارننگ دے دی ہے۔
اب بیچارے مفتاح اسماعیل واشنگٹن میں دردر خیرات مانگتے پھر رہے ہیں کہ دیوالیہ ہونے سے بچا جاسکے۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹر پر یہ ٹرینڈ چلایا # غلطی سدھارو۔
الیکشن کرائو، تو میں نے اس پر یہ تبصرہ کیا تھا ’’مطلب یہ ہوا کہ (فوج) عمران خان کی سرپرستی ترک کرنے کی غلطی سدھارے، 2018 جیسے انجینئرڈ الیکشن کرائے اور پھر عمران کو سلیکٹ کرنے کی غلطی دہرائے‘‘۔ لیکن عمران خان کا ان کی حکومت کو نکلوانے کی مبینہ امریکی سازش کو قومی خود مختاری اور خودداری پہ حملے کا بیانیہ شہری مڈل کلاس میں ان کے سابقہ کرپشن مخالف بیانیے سے زیادہ بک رہا ہے۔
ڈاکٹر وسیم نے اپنی کتاب پولیٹکل کانفلکٹ ان پاکستان میں اس بنیادی بیانیے کو مڈل کلاس سے موسوم کیا ہے جس کے دل و دماغ پر قومی غیرت، اسلامی حمیت اور منافقانہ مغرب دشمنی چھائی ہوئی ہے جو پاکستان کی جدید نوآبادیاتی ریاست کے جدید ڈھانچوں اور ریاست کے تاریخی طفیلی کردار سے متصادم ہے۔
جس سفارتی ٹیلیگراف کو عمران خان نے موصول ہونے کے 20 روز بعد اسلام آباد کے اجتماع میں لہرایا تھا، اس میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے تجویز کیا تھا کہ امریکہ سے پوچھا جائے کہ امریکی سفارتی نمائندے نے جو زبان استعمال کی، کیا وہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی ہے؟
عمران خان کی زیر صدارت ہونے والا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو یا گزشتہ روز کا شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والا اجلاس ، ان دونوں اجلاسوں میں ’’بیرونی سازش‘‘ کو رَد کیا گیا اور اب یہ کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کو کسی سازش کی کوئی شہادت نہیں ملی، جس مداخلت کا ذکر ہے۔
اس کی مذمت کے لیے امریکہ کو احتجاجی مراسلہ دے دیا گیا ہے اور معاملہ ختم ہوا۔ لیکن عمران خان کے بقول امریکہ، پاک فوج، عدلیہ اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں انہیں نکلوانے میں ملوث ہیں۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کو اور کیا چاہیے تھا، انہوں نے سوشل میڈیا اور سڑکوں کو گرم کردیا۔ لیکن جوں جوں سازش کی طفلانہ کہانی کا اثر زائل ہوتا چلا جائے گا ویسے ہی عمران حکومت کی بدتر کارکردگی۔
آئین شکنی اور غیر جمہوری و فسطائی رویے عوامی مباحثے میںنمایاں ہوتے جائیں گے۔ نواز شریف نے طنزاً پوچھا ہے کہ ’’عمران نے کون سا ایٹم بم چلایا تھا کہ امریکہ مخالف ہوگیا‘‘۔ اور بلاول بھٹو نے اُن کے بیانیہ پہ پھبتی کسی ہے کہ عمران کا بیانیہ یہ ہونا چاہیے کہ ’’مجھے کیوں نہیں بچایا‘‘۔
آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں ریاستی اقتدار اعلیٰ کئی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت گنوا بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے دقیانوسی مالی ومالیاتی نسخوں سے کام چلا اور نہ چلے گا۔
بجٹ خسارہ تمام آمدنیوں پر ترقی پسند ٹیکس اور امرا کو حاصل مراعات و استثنیات ختم کر کے اور غیر پیداواری و غیر ضروری دفاعی اخراجات کم کر کے بہ آسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح امرا کو دی گئی بیشمار سبسڈیز ختم کی جانی چاہئیں اور ان کا رُخ صرف کم آمدنی والے طبقات کی طرف کردینے سے غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق امرا کو 4200 ارب روپے کی مراعات حاصل ہیں۔ زرعی آمدنی پہ ٹیکس محض 2 ارب روپے اور شہری کرایوں کی مد میں صرف 6 ارب روپے وصول ہوتے ہیں۔ رہا تجارتی خسارہ تو وہ تمام لگژری و غیر ضروری اشیا جن پر بھاری زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے ان کی درآمد فی الفور مکمل بند کرنے سے اس میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
پاکستانی برآمدات کو چین اور بھارت کی منڈی میں بڑھانے کے لیے بھی بڑے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ اور توانائی کی ضروریات خاص طور پر سستی گیس، ایران اور روس سے بھی منگوائی جاسکتی ہے۔ یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان پر امرا کے قبضے کو ختم کیا جائے اور اقتدار کی سیاسی معیشت کی کایا پلٹ ہو۔ لیکن یہ عمران خان سمیت کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں۔
عمران خان تو الٹا جنرل ایوب خان کے طبقاتی و علاقائی تفریق اور امریکی ایڈ کے زمانے کو سنہرا دور کہہ کر بار بار اس کی یاد دلاتے ہیں۔ رہی بات موجودہ انتظامیہ کی یہ ان اسمبلیوں کی موجود مدت پوری نہیں کرسکتی، نہ ایک محدود عبوری عرصہ میں کوئی بڑا کرشمہ دکھاسکتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی پھرتیوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ نئی مردم شماری کے ہوتے ہی اس سال کے آخر میں نئے الیکشن کی تاریخ کااعلان کردیا جائے اور عمران خان واپس اسمبلیوں میں آجائیں تاکہ قومی اتفاقِ رائے سے منصفانہ و آزادانہ انتخابات منعقد ہوسکیں۔وگرنہ اگلے انتخابات بھی متنازعہ ہی رہیں گے۔ بھلا عمران خان کو کوئی کیا سمجھائے؟