مندر میں جلاؤ گھیراؤ، انتظامیہ بھی مذہبی جماعت کے فعل کی حمایتی نظر آنے لگی ۔ اکسانے والے تین مذہبی جنونی تاحال آزاد ہیں ۔ پولیس نے 31افراد کو گرفتار کرلیا اصل ملزموں پر ہاتھ نہ ڈالا۔
کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں تاریخی مندر میں توڑ پھوڑ پر اکسانے والے مرکزی مذہبی جنونی تاحال آزاد ہیں ۔ پولیس نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اکیتس افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مقدمےمیں جے یو آئی کے ضلعی امیر سمیت 350افراد نامزد ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے ذرائع مطابق وفاق اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی جانب سے سخت کارروائی کا دباؤ ہے تاکہ عالمی دنیا کی نظروں میں ساکھ بچائی جا سکے ۔ ذرائع کے مطابق مقامی انتظامیہ اور پولیس مذہبی جماعت کے اثر رسوخ کی وجہ سے کارروائی سے گریزاں ہے ۔
انظامیہ میں بھی کئی افراد مندر توڑنے کو برحق سمجھتے ہیں اور مذہبی جماعتوں کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتے ۔ کرک کی تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے گاؤں ٹیری میں ہندؤں کے مندر کی توسیع کے خلاف مشتعل مظاہرین نے 1920 میں بننے والی عمارت میں توڑ پھوڑ کی تھی ۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ مندر میں توسیع کسی صورت قبول نہیں، یہ ہندؤں کی سمادھی نہیں بلکہ کسی مسلمان کی قبر ہے۔
دوسری جانب ہندؤں کے پنڈت تنویر چند نے بتایا کہ ٹیری کے مقام پر 1919 میں دیویا جیان دیواس یہاں آکر فوت ہو گئے تھے ان کی سمادھی بنا دی گئی تھی۔ دیویا جیان کی تعلیمات امن کی تھیں وہ یہاں مراقبہ کرتے تھے اور امن کی تعلیم دیتے تھے ۔ مسلمانوں کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہے ۔