دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، کابل ۔کیا کابل جانے کا وقت درست تھا؟ڈی جی آئی ایس آئی کے دورے پر سوالات،لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدخفیہ دورے پر ہفتے کی صبح کابل پہنچے
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کے اچانک دورے سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے ۔ اس دورے کی ایک ہی تصویر وائرل کی گئی ہے جس میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ہاتھ میں قہوہ کا کپ تھامے نظر آرہے ہیں۔ ان کے ساتھ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سینئر اہلکار کھڑے ہیں جبکہ یہ جگہ کابل ایئرپورٹ کی وی آئی پی لابی بتائی گئی ہے ۔ اس تمام جگہ پر طالبان کا
خصوصی دستہ بدری تین سو تیرہ تعینات ہے ۔
سکیورٹی ذرائع نے پاکستانی میڈیا پر ایک بیانیہ چلوانے کے لئے موقف اپنایا ہے کہ یہ دورہ طالبان شوریٰ کی درخواست پر کیا گیا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے طالبان رہنماؤں سے تفصیلی ملاقات کی ہے اور ان سے دو طرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں بارڈر مینجمنٹ اور تجارت بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا ہے ۔
بھارتی میڈیا کی رائے
ہندوستان ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے دو گروپوں میں حکومت سازی میں اختلافات سامنے آئے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق قندھاری اور کابلی گروپس میں اختیارات کی تقسیم پر مختلف رائے سامنے آرہی ہیں ۔ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی اس تنازع کو ختم کرانے اور حکومت سازی کے لئے فائنل حکمت عملی وضع کرنے کابل پہنچے ہیں۔ اس دعوے کی بعد پاکستانی حکام کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا دورہ کیا جلد بازی میں کیا گیا ؟
اس حوالے سے دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار خالد چودھری نے کہا کہ پاکستان کا طالبان پر اچھا خاصا اثر رسوخ ہے ۔ طالبان لیڈر شپ سے پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں مگر بظاہر یہ دورہ علامتی ہے اور طالبان سے مزید اظہار یکجہتی کے لئے جذبہ خیر سگالی کے تحت ہے ۔ پاکستان حکام یہ جانتے ہیں کہ ڈی جی کی قہوہ پیتے ہوئے تصویر جاری کرنے سے پڑوسی ملک میں کس قدر شور اٹھے گا۔ یہ جانتے ہوئے حکام اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں ۔دوسری جانب اہم سوال یہ ہے کہ اگر دنیا کے بڑوں نے طالبانی حکومت کو تسلیم نہ کیا تو پاکستان کا کیا بنے گا؟ اس لئے یہ دورہ عجلت میں کیا گیا ہے ابھی فی الحال اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ ویٹ اینڈ سی کی پالیسی پر چلتا اہم ممالک طالبان کو قبول کر لیتے تو ایسے تعلقات دنیا کو شو آف کرنے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔