سپر لیڈ نیوز، اسلام آباد۔ اسلام آبادہائی کورٹ نے اسد طور کو ایف آئی اے سے جاری دوسرا نوٹس معطل کرا دیا ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تفتیشی افسربتائیں شکایت کیا مجوزہ طریقہ کارپر پوری اترتی ہے؟
سپر لیڈ نیوز کےمطابق چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیےکہ ہم سوسائٹی میں اتنا گر گئے ہیں کہ کسی کے وقار کا خیال ہی نہیں کرتے۔ عدالت بار بار کہہ رہی ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ ایف آئی اے تکنیکی طورپر کسی کو سمن نہیں کر سکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سائبر کرائم کی آڑ میں اختیارات کے بےجا استعمال کے خلاف اسد طور، کنول شوزب کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت تفتیش سے کسی کوبھی نہیں روکتی۔ کیس میچورہونےسے پہلے لوگوں کونوٹس جاری کرنے سے روکنا ضروری ہے ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے نمائندے کو مخاطب کر کے کہا آپ نے نوٹس کس قانون کے تحت جاری کیاتھا وہ بتائیں۔پارلیمنٹ نے جو قوانین بنائے ان کی قدر کرتے ہیں۔ پہلےپورا سیکشن 20پڑھیں اور پھر دیکھیں یہ قانون کب لاگو ہو گا۔ یہ قانون تب حرکت میں آئے گا جب متاثرہ شخص خود شکایت کرے۔ کئی کیس آئے جہاں کسی تیسرے شخص کی شکایت پرکارروائی ہوگئی۔
ایک شخص نے ماحولیات سے متعلق کوئی واٹس ایپ پربات کی آپ نے اسے بھی نوٹس کردیا۔ ایف آئی اے اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرسکتی ہے یہ ہم نے دیکھنا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایف آئی اے عدالت کے آرڈرز کا کچھ خیال نہیں کر رہی۔ ایف آئی اے نوٹس پرتاریخ ہوتی ہے نا لکھا ہوتا ہے کہ کیوں سمن کیا جارہا ہے۔ اس طرح تو ایف آئی اے نہیں چل سکتی۔ ایف آئی اے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی یہ کرمنل کیس ہے ۔ اس کے سوسائٹی پر اثرات ہوتے ہیں۔ عدالت نےاٹارنی جنرل کوبھی ہدایت کی کہ ایف آئی اے کو شہری کے حقوق کے تحفظ کے سیف گارڈبتائیں۔