حنظله خليق،ویتنام کےادب سے۔۔ زحل ستارےکی محبوبہ ۔۔میں۔۔ جو۔۔ اب کھوکھلی ہڈیوں والا داستان گوہوں۔۔ میں ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔کبھی میرے اندر ثبات نہ تھا۔
ہاں!
کبھی میں سب سے بڑا آوارہ گرد تھا
میرا جسم اب میرے ساتھ نہیں چل سکتا لیکن
میری روح آج بھی ۔۔کہکشاؤں تک پھرتی ہے
اور پھر زحل ستارے کو دیکھ کر ٹھہر جاتی ہے
وہ ایک رات تھی۔۔
جب میں تنہا ویتنام کے اس غار کے پاس رکا۔۔
وہ غار۔۔ جو اس زمین پر سب سے بڑا ہے دریاؤں،ندیوں اور جنگلوں والا —-وہ اک غار نہیں بلکہ ایک جہان تھا
وہاں میں نے ایک پری کو دیکھا۔۔
ایک کمسن حسین، گلہریوں سے کھیلتی ہوئی
اس کے چہرے پر زعفرانی تل تھے۔۔
اس کا رنگ ایسا تھا جیسے بادام کے شیرے میں تیرتے یاقوت۔۔
اور پھر اس کی آنکھیں دیکھ کر میں بھول گیا ۔۔کہ میں اس محیر العقل غار میں ہوں۔۔اس کی آنکھیں چنبیلی جیسی تھیں بلکل سفید پنکھڑیاں۔
میں نے حیرت کو ہٹاتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔
تم کون ہو؟
اس نے کہا میں زحل ستارے کی محبوبہ ہوں۔
جس دن میں پیدا ہوئی
وہ اس دن آسمان سے نیچے آیا۔۔
اور میرے گال پر بوسہ دیا؛اور پھر اس نے میری مُندی ننھی آنکھوں پر چنبیلی کے پھول رکھ دیے۔
اور پھر مجھے اپنی گود میں اٹھا کر فلک پر چلا گیا۔
اس کے بوسے سے میرے گال تلوں سے بھر گئے، اور میرا رنگ اُس کی طرح چمکنے لگا۔
پھر یکلخت،غار میں سرخ چمک پھیلنے لگی اور وہ چنبیلی جیسی آنکھیں۔۔
اس میں معدوم ہوگئیں،میں ششدرہ گیا ۔
میں کئی دن اس غار کے نشیبوں میں اس کا متلاشی رہا۔۔
میں نے کیا نہیں دیکھا۔۔
میں نے سری لنکا کے ویران مندروں میں بندریا کو اپنے بچوں کو ناریل کا جھولا جھولتے دیکھا۔
میں نے صحارا کا وہ گاؤں دیکھا جہاں جگنو مسلسل چمکتے ہیں۔۔بجھتے نہیں۔
میں نے نیاگرا آبشار سے گرتے نیلے کنول کے پھول دیکھے۔۔
میں نے پولینڈ کے وہ مرغزار دیکھے۔۔
جہاں، "کوپرنیثس” نے زمین کو گھومتے ہوئے پایا تھا۔۔
میں نے ” أوهؤ” کے جزیرے میں گلابی سمندر دیکھا۔۔
اور پھر میں اوسلو کی وادیوں میں پہنچا جہاں رات اور دن مہینوں جتنے لمبے ہو جاتے ہیں۔۔
اور سورج آسمان پر گول چکر میں گھومتا ہے۔
میں نے روس کی طوائفیں دیکھیں، جن کے چہرے بہتی برف جیسے تھے۔
میں ایمازون کی اس دلدل میں پہنچا جہاں کچھوے اپنے خول اتار کر سرسوں کے پھولوں سے کھیلتے ہیں ۔
میں نے کیا نہیں دیکھا۔۔
میں نے وینس کی وہ لڑکیاں دیکھیں جو کشتی چلاتی ہیں۔۔مچھلیاں جن کی عاشق ہیں۔۔
میں نے تبت کے وہ گڈریے دیکھے۔۔ جن کے طوطے لوریاں سناتے ہیں۔ میں نے فرانس کے دیہات میں دودھیا بازوؤں والی کسان عورتیں دیکھیں۔۔
جن کو دیکھ کر میں نے کہا۔۔
"عورت ہی بیشک خدا کی سب سے حسین مخلوق ہے”
میں نےحسن کے عالم دنیا مصر، کی دوشیزاؤں کو بے نقاب دیکھا۔۔اور میں نے اندلس کی مہ پارہ راہباوؤں کو دیکھا؛ تو میرا دل بھی اک راہب بن گیا۔
یہ بھی پڑھیئے :عالمی ادب کا شاہکار،الکیمسٹ
صحراؤں کی راتوں سے آئس لینڈ کے پھولوں تک۔۔ میں نے کیا نہیں دیکھا۔
لیکن پھر جب میں یہ سب یاد کرتا ہوں تو میرا دل میری آنکھوں سے کہتا ہے۔۔نہیں تم نے اس چنبیلی کی آنکھوں جیسا کوئی نہیں دیکھا ،کوئی منظر کوئی چہرہ۔۔۔۔
آج بھی جب مجھے وہ یاد آتی ہے تو میرا مَن میرے سینے سے نکل کرکہکشاؤں میں اڑتا ہے اور اس کو زحل ستارے کی آغوش میں دیکھتا ہے۔
جب وہ روشنیوں کے دھاروں والا ستارہ اپنی اس محبوبہ کے گالوں پر زعفرانی تلوں کا بوسہ لیتا ہے۔ تو میری روح اڑ کر پھر اس ویتنام کے غار میں چلی جاتی ہے۔
اور اس چنبیلی کی آنکھوں والی لڑکی کو تلاش کرتی ہے۔۔۔۔اُس زحل ستارےکی محبوبہ کو۔۔
One Comment