سب سےاچھی دوست سےلمبی جدائی

سب سےاچھی دوست سےلمبی جدائی ۔۔ قلم سے منہ موڑے کئی مہینے گزر گئے۔بک شیلف میں پڑی میری ڈائری خاموشی سے میرے تماشے دیکھ رہی تھی اور خاموش تھی۔لیکن شاید اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔

لکھاری رخشندہ بتول کا تعلق جہلم سے ہے ۔ گورنمنٹ کالج فار ویمن میں شعبہ تدریس سے منسلک ہیں ۔آپ کے بیسیوں افسانے مختلف فورمز پر شائع ہو چکے ہی

آتے جاتے اس کا پھولا ہوا منہ میرے قدم روکتا۔۔۔بے ساختہ پیار آتا۔۔میں سوچتی اپنی پیاری دوست کو باہوں میں بھرلوں اور بہت سی پیار بھری باتیں کروں لیکن ظالم وقت۔۔۔۔اب چند دنوں سے اداسی منہ کو آ رہی تھی تو بک شیلف کے قریب سے تیزی سے گزرنا محال ہو گیا۔

رات کے کسی پہر اپنی روٹھی ہوئی سہیلی کو گلے لگایا اپنے ساتھ بیڈ پہ لے گئی۔دیکھا تو آخری تحریر پچھلے سال کی تھی۔اتنی طویل جدائی کی داستان تحریر کرنے کی جلدی میں اگلاصفحہ پلٹا تو محسوس ہوا کہ اس خالی ورق نے میرے لاڈ اٹھانےسے صاف انکار کردیا۔قلم اپنی روانی کھو چکا تھا۔میں نے بہت سوچنے کے بعد زبردستی کوئی اجنبی سا جملہ لکھا اور پھر کاٹ دیا۔”میں اتنا پھیکا کیسے لکھنے لگ گئی؟”افسوس ہوا۔۔۔ کیا باقی دوستوں کی طرح میری یہ دوست بھی (جسے میں اپنا آئینہ سمجھتی تھی) ملاقات کی محتاج ہے؟میرا یہ زعم کہ میں اس سے سب کچھ شیئر کر سکتی ہوں خاک ہو جائے گا؟میں نے اپنا قلم خالی صفحےپر رکھا اور دکھ کے احساس کو مٹانے کی خاطر آنکھیں بند کر لیں۔مجھے وقت کے گھوڑے پہ بہت پیار آیا۔ سوچا شکر ہے کوئی تو ہے جو مجھے ہر بےوفا تعلق سے ماورا کر دیتا ہے۔پھر سوچا یہ میرا وہم تھا کہ بک شیلف کے قریب سے گزرنا مشکل ہے ۔مجھے کسی نے آواز نہ دی تھی۔آئندہ کبھی نہیں لکھوں گی۔

میری تھکن آنسو بن کے خالی صفحےکو بھگونے لگی۔لیکن پھر معجزہ ہوا۔شکر ہے میری یہ دوست مادہ پرست نا تھی ۔میرے آنسوؤں نے جیسے ہی خالی صفحے کوچھوا ڈائری کے ماتھے کے بل ڈھیلےپڑنے لگے۔وہ میری جانب مسکرا کے دیکھنے لگی۔قلم میری انگلیاں چومنے لگا۔اس کے بعد یاد نہیں کہ کتنی دیر میں حال دل سناتی رہی۔کتنی سطریں میرے خوابوں سے بھر گئیں۔کتنے صفحات میری الجھنیں سمیٹتے رہے۔یوں لگ رہا تھا جیسے مدتوں بعد کسی پیار کرنے والےنے باہوں میں بھر لیا ہو۔میں وقت کے گھوڑے پر سوار طے کردہ اپنے سفر کو لکھتی چلی گئی۔

گویا میرے آنسو اس قلم کی روشنائی بنتے گئے اور ڈائری کے صفحات میرا دل۔میں نے پرسہ دیا ان تمام لفظوں کا جو میرے دل میں چٹکیاں کاٹتے رہے لیکن وقت ملتا تو گوش گزار کرتی۔افسوس اس تیز رفتار گھوڑے نے ان لفظوں کو روند ڈالا ۔اس راہوار نے اتنی گرد اڑائی کہ میں پیچھے مڑ کے دیکھتی تو کچھ دکھائی نہ دیتا تھا سوائے دُھول کے۔میں نے بَین لکھے ان تمام لفظوں کے،جو میں اس لیے نہیں لکھوں گی کہ میں انہیں دوبارہ خود بھی کبھی پڑھنا نہیں چاہتی۔میں نے ان تمام لفظوں کی چیخیں لکھیں جو لکھے جانے چاہییں لیکن ایک انجانا خوف ان لفظوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔

میں نے اپنی ڈائری کو ان تمام لفظوں کے بارے میں بتایا جو آنسو بن کے گلے میں اٹک جاتے ہیں۔جن کو لکھا نہیں جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔جو تاثر ہیں حرف نہیں۔۔۔آنسوؤں کی روشنائی ختم ہوئی تو میرے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔ ایک مطمئن مسکراہٹ۔ساری تھکن اتر گئی۔ڈائری بند کرتے ہوئے میں نے وقت کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی۔گھوڑا کہیں دور نکل گیا۔اتنا دور کہ اس کے سموں کی ٹاپ بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔میں سو گئی۔۔۔۔ پرسکون نیند۔۔۔۔ لمبی نیند۔جانے کتنے پہر سوتی رہی۔آنکھ کھلی تو ڈائری میرے پہلو میں پڑی تھی۔میں نے مسکرا کر اسے چوما اور اپنی ہمراز کو پھر سے گلے لگا لیا۔تازہ دم ہو کر چائے پی اور یوں ہی گنگناتے ہوئے ڈائری کو کھولا کہ رات کی تحریر کو ایک نظر دیکھوں۔۔ایک لمحے کو تو لگا جیسے ڈائری میرے ہاتھ سے گر جائے گی۔پچھلے سال کی تحریروں کے بعد ایک صفحہ جو شاید میرے آنسوؤں سے بھیگا تھا؛اکڑا ہوا تھا اس پہ کوئی جملہ لکھا گیا اور کاٹ دیا گیا۔اور اس کے بعد۔۔۔۔اس کے بعد لاتعداد صفحوں پر بے ترتیب لائنیں،دائرے ،آڑے ترچھے خطوط،سیاہی کے داغ۔۔۔۔

یوں لگ رہا تھا جیسے کسی بچے کو لکھنا نہیں آتا ہو اور وہ قلم کتاب سے کھیلتا رہے۔کوئی ایک لفظ بھی تو اس قابل نہیں تھا جسے سمجھا جا سکے۔کوئی لفظ تھا ہی نہیں۔اسی اکڑے ہوئے صفحے پر دو آنسو اور گرے اور بے ترتیب لائنوں سے گھبرا کر میں نے ڈائری بند کر دی