شہراقتدارمیں فرقہ واریت کےبڑھتےسائے ،ریاست خاموش

وقت اشاعت:23نومبر

 گل زہرا رضوی۔ شہراقتدارمیں فرقہ واریت کےبڑھتےسائے ،ریاست خاموش  ہو گئی ۔ تازہ واقعہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف 11تھری کے کالج  میں پیش آیا جہاں سیکنڈ ایئر کے طلبا فرقہ واریت کے آلہ کار بن گئے ۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز  سیکٹر ایف 11تھری میں دوران کلاس  دو مختلف  مسلک کے طلبا آمنے سامنے آگئے ۔ معاشرتی علوم کے استاد  عمر محمود نے لیکچر کے دوران حساس موضوع کاخیال نہ رکھتے ہوئےمعاملے کو طوالت  دی اور  ایک اسلامی  شخصیت  کو دوسرے پر فوقیت دی جس پر کلاس کے ایک  طالب علم قلبِ عباس نے اعتراض کیا۔ اسی دوران پاس بیٹھے طلبا محمد وقاص اور اعجاز خان نے اسے مارنا  شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دیگر طلبا بھی میدان میں اتر آئے اور قلب عباس پر تشدد کیا۔ فوری طور پر پرنسپل کو اطلاع دی گئی دیگر اساتذہ بھی جمع ہو گئے ۔  قلب عباس  نامی طالب علم کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ۔

ذرائع کے مطابق کالعدم اہلسنت و الجماعت اور کالعدم سپاہ صحابہ    کے مقامی رہنما بھی تھانے پہنچ گئے ،معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پولیس پر فوری مقدمے کے لئے دباؤ ڈالا ۔یوں اسلام آباد کی اس درسگاہ کا معاملہ تھانہ شالیمار آن پہنچا اور انتشارکی جانب بڑھنے لگا۔ اس  کالج میں بھی  خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ پرنسپل نے بدنامی کے ڈر سے  معاملے  کو بعد ازاں دبانے کی کوشش کی ۔

باقی طلبا کیا کہتے ہیں؟

 سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں کلاس کے  ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے  کی شرط پر بتایا کہ قلب عباس نے توہین مذہب کی ہے ۔ اسے منع کیا تو کلاس میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ  قلب عباس نے مقدس ہستی کے نام کے آگے نازیبا الفاظ تحریر کئے ،جبکہ شکایات پر کہا کہ اس کی جو مرضی ہوگی کرے گا۔

دوسری جانب قلب عباس کے حامی ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کالعدم تنظیم کے رہنماؤں نے جان بوجھ کر معاملے کو ہوا دی ہے ۔یہ کلاس کی لڑائی تھی مگر مولویوں نےا سے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کلاس میں کئی طالبعلم کالعدم جماعت کے حمایتی ہیں اور واٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے میں ہیں ۔ قلب عباس نے کچھ غلط نہیں کیا۔

ایف آئی آر کا عکس

سپر لیڈ نیوز نے موقف جاننے کے لئے اہلسنت و الجماعت اسلام آباد کے سیکرٹری  جنرل عبد الرحمان معاویہ سے ٹیلی فونک گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ طالب علم قلب عباس کی عمر محض سترہ سال ہے مگر اس نے دانستہ طور پر مقدس ہستی کی توہین کی ۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی فرقے سے ہو وہ فرقہ واریت کا فروغ نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ اس بچے کی برین واشنگ کی گئی ہے جس پر افسوس ہے ۔ قلب عباس نے اہلسنت مسلک کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملے کی تہہ تک جایا جائے اور اس کا کھوج لگایاجائے تاکہ  یہ معلوم ہو کہ قلب عباس کے پیچھے کونسے عناصر ہیں ۔  

اساتذہ خود فرقہ واریت چاہتے ہیں ؟

 اس حوالے سے سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں ماہر تعلیم ڈاکٹر عائشہ لغاری نے پاکستانی نظام تعلیم  میں سقم کا اعتراف کیا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ نظام ہی فرسودہ ہو چکا ہے اور حساس موضوعات میں صرف ایک فرقے کی اجارہ داری یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

کالج کے طلبا اور مذہبی جماعت کے رہنما معاملے پر حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے ۔ فوٹو کریڈٹ :دی ہود بائیوسٹ

غیر مسلموں، اقلیتوں اور دیگر فرقوں کے عقائد کا خیال رکھنا تو درکنارالٹا ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ جس سے کسی کے بھی جذبات مجروح  ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا  اس موقع پر کلاس کے استاد کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مذہبی معاملے کو طوالت دینا ہی نہیں چاہیے تھی ۔ انہوں نے قومی  تعلیمی نصاب میں ایسے حساس موضوعات کی موجودگی پر بھی اعتراض اٹھایا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ  تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا کوئی مناسب نظام نہیں ۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض اساتذہ ہی کالعدم تنظیموں اور انتہا پسندانہ نظریات کے حامی نکلے ہیں ۔بچوں کو فرقہ واریت سے دور رہنا چاہیے اور مذہبی معاملے میں بحث کرنی ہی نہیں چاہیے۔ اس سلسلے میں  رہنمائی کے لئے کلیدی کردار  اساتذہ کا ہی ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے نظام کی خرابی کی وجہ سے اساتذہ ہی معاملہ خراب کر رہے ہیں ۔  ڈاکٹر عائشہ لغاری نے قائد اعظم یونیورسٹی کے  ایک ایسے ہی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست اس معاملے میں خاموش رہی تھی ۔