SUPER KNOWLEDGE

سونا ضرور خریدیں مگر یہ معلومات ہمیشہ یاد رکھیں

قاسم چو ہان ، سپر لیڈ نیوز، کراچی ۔ سونا ضرور خریدیں مگر یہ معلومات ہمیشہ دماغ میں رکھیں  کہ ایک تولے  سونے  میں 11.664 گرام ہوتے ہیں۔ اسی طرح 1 تولہ سونے میں 12 ماشے نکلتے ہیں ۔

اگر آپ 1 تولہ زیور فروخت کرتے ہیں تو  اگر یہ اسی سنیارے نے بنا کر دیا ہے تو وہ 2 ماشے کٹوتی کرنے کا مجاز ہے ۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی اور سے بنوایا اور فروخت کسی اور سنیارے کو کر رہے  تو وہ ایک تولہ سونے کی 3 ماشے کٹوتی کرے گا۔ اس لئے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس سے سونے کا سیٹ خریدیں اسی کو بیچنے کی کوشش کریں ۔ یاد رہے کہ سنیارا  ماشے کو ایک رتی رشے کا نام دیتا ہے ۔ پس اگر آپ نے 1 تولہ سونے کا سیٹ  فروخت کیا تو کٹوتی کے نام پر آپ کے زیور سے 3 ماشے گئے ۔

قیراط کیا ہوتا ہے؟

اب دوسری طرف آتے ہیں یعنی اگر آپ زیور بنواتے ہیں تو سنیارا آپ کو سب سے پہلے آگاہی دیتا ہے کہ جناب یہ سونا فلاں قیراط کا ہے ۔ بائیس قیراط کا ہے یا چوبیس قیراط کا ہے ۔قیراط (Carat) سونے کے خالص پن کو ناپنے کے معیار کا نام ہے ۔تقریبا سو فیصد خالص سونا 24 قیراط ہوتا ہے جو پاکستان میں نایاب ہوتا ہے ۔ بعض سنیارے جھوٹ بول کر چوبیس قیراط سونے کاجھانسا دے کر بھی زیور بیچ دیتے ہیں۔ جبکہ ایسے بھی ہیں جو سچ سے کام لیتے ہیں ۔ جتنے قیراط کم ہوں گے ، اتنی ہی ملاوٹ شامل ہوگی ۔ واضح رہے کہ کیمیائی فارمولے کے حساب سے چوبیس قیراط سونا بھی یہ 99.99 ٪ خالص ہوتا  ہے ۔ اسی طرح 12 قیراط مطلب 50 فیصد ملاوٹ اور 18 قیراط 75 فیصد خالص پن کو ظاہر کرتا ہے ۔ قیراط کمیت (وزن) کے پیمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا  ہے ۔ ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں کا وزن عام طور پر قیراط میں ناپا جاتا ہے۔

کیا پاکستان میں خالص سونا ملتا ہے ؟

پاکستان میں عام طور پر سنیارے 15 یا 18 قیراط سونا بنا کر دیتے ہیں۔  پاکستان میں چند ایک بڑے جیولرز کو چھوڑ کر کسی کے پاس 24 یا 22 قیراط سونا بنانے کی مشین نہیں  البتہ عرب ممالک سے آنے والا سونا خالص بھی ہوسکتا ہے ۔ کراچی میں بائیس قیراط سونا تیار کرنے والے جیولرز موجود ہیں جبکہ لاہور کی مارکیٹوں میں بھی کچھ سنار ایسے موجود ہیں۔ اگر سنیارے نے آپ کو 18 قیراط زیور بنا کر دیا  ہے  تو اس نے سونے میں 25 فیصد ملاوٹ کی  ہے ۔ یعنی  تولہ زیور بنا کر دیا   ہے تو سنیارا آپ سے قیمت خالص سونے کی ہی وصول کرے گا۔

Related Articles

Back to top button