ندیم رضا، بیوروچیف ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام، واشنگٹن ڈی سی ۔ صدر بائیڈن نے جمہوریت کے فروغ کے لئے 100سے زائد ممالک کو اکٹھا کرلیا، پاکستان نے بائیکاٹ کیوں کیا ؟
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق صدر بائیڈن نے 100 سے زیادہ ملکوں کے سربراہوں کو جمہوری سمٹ میں اکٹھا کرکے تاریخ رقم کر دی ۔ بائیڈن کی جانب سے بلائی گئی یہ ورچوئل کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا کورونا کے نقصانات سے نمٹ رہی ہے ۔ افتتاحی خطاب میں صدر بائیڈن نے دنیا میں بڑھتی ہوئی آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کو تقویت دینے کی اپیل کر دی ۔ امریکی دعوت پر ہونے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی ورچوئل کانفرنس ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں ملکوں کے رہنما جمع ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ۔
صدر بائیڈن نے کیا کہا ؟
اپنے افتتاحی خطاب میں صدر جو بائیڈن نے کہا کہ دنیا کو اس وقت آمریت سے بڑا خطرہ ہے ۔ یہ آمریت مختلف اشکال میں ملکوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔ اس کا سدباب بہت ضروری ہوگیاہے ۔ عوام کی رائے سامنے آنی چاہیے ۔ کانفرنس کا مقصد دنیا میں جمہوری پسپائی اور آمروں کی پیشقدمی کو روکنا ہے ۔۔جمہوریت کی تجدید ہمارے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جمہوریت حادثاتی نہیں ہوتی ۔ ہر نسل کے ساتھ اس کی تجدید کرنا پڑتی ہے ۔ اپنے خطاب کے دوران بائیڈن نے چین اور روس کو براہ راست نشانہ بنانے سے گریز کیا۔
کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے والا واحد ملک پاکستان
واضح رہے کہ اس کانفرنس میں چین اور روس کو مدعو نہیں کیا گیا تاہم تائیوان کو دعوت دی گئی ہے ۔اس کانفرنس میں پاکستان کو بھی دعوت دی گئی تھی مگر حکومت پاکستان نے شرکت سے معذرت کر کے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا۔ اس طرح دعوت نامے کے باوجود پاکستان کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے والا واحد ملک ہے ۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں ؟
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام نے پاکستان کے انکار پر تجزیہ کاروں کی بھی رائے لی جنہوں نے اسے ایک سنگین غلطی قرار دےیا۔ دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے ٹیلیفونک گفتگو میں تجزیہ کار ڈاکٹر مغیث الدین کاظمی نے کہا کہ اس انکار کے پیچھے دو عوام پوشیدہ ہو سکتے ہیں ۔ نمبر ایک بائیڈن کے عمران خان کو فون نہ کرنے پر پاکستان اپنی ساکھ بچاتے ہوئے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پاکستان کو بھی اب امریکا کی ضرورت نہیں ۔ جیسا کہ معید یوسف کچھ روز قبل واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان امریکا سے برابری کی سطح پر مضبوط تجارتی تعلقات چاہتا ہےاور نوزائیدہ طالبان حکومت اور افغان عوام کی مدد کرتا رہے گا گو کہ سب جانتے ہیں کہ صدر بائیڈن طالبان پر پابندیاں بحال رکھنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے طالبان کی جانب جھکاؤ سے زیادہ خوش نہیں ۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ ہمدردی جتانا چاہتا ہے اور تائیوان کو مدعو کرنے پر بائیکاٹ کر کے چین کو خوش رکھنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نتائج نہیں دے گی کیونکہ ایک خاص بلاک کا حصہ بن کر پاکستان نہ تو تباہ حال معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سٹریٹیجک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ اس ضمن میں عمران خان حکومت کی پالیسی ناکام دکھائی دے رہی ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کو لازمی طور پر جمہوریت کے فروغ کی کانفرنس میں شرکت کرنا چاہیے تھی
کیا پاکستان آمریت پسندی کا فروغ چاہتا ہے ؟
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے گفتگو میں تجزیہ کار خالد چودھری نے کہا کہ ملکی تاریخ تو ویسے ہی جمہوریت کی بربادی کی عکاس ہے ، آمرانہ دور میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایسے میں بائیڈن کے بینر تلے جمہوریت کے فروغ کی کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے پاکستان نے یہ پیغام دیا ہے کہ ہم درحقیقت آمریت کے ہی قائل ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی کچھ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتی ۔ یہ بات درست ہے کہ کسی ایک خاص بلاک کا حصہ بننے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام اور مہنگائی کا کنٹرول ہے ۔ پاکستان کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اندرون ملک مسائل بڑھ رہے ہیں, ایسے میں اولین ترجیح معاشی بحالی ہونی چاہیے نا کہ سٹریٹیجک سپورٹ اور عالمی معاملات میں غیر ضروری توجہ۔ پاکستان اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہے جب تک ملک کی معیشت ٹھیک نہیں ہوگی عالمی امور میں ٹانگ اڑانا مناسب نہیں ۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے براہ راست تو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ، ظاہر سی بات ہے کہ یہ صدر بائیڈن کی ذاتی کاوش ہے کسی بھی ملک کو بائیکاٹ کا حق ہے مگر یہ پیغام پاک امریکا تعلقات کے لئے نیک شگون نہیں ۔