ندیم چشتی ، بیوروچیف دی سپرلیڈ ڈاٹ کام ، اسلام آباد۔ اٹک جلسے میں ہدف پھر نواز ، شہباز اور زرداری ، الیکشن کمیشن پر تنقید نہ میر جعفر میر صادق کا تذکرہ ، کیا عمران مفاہمت کی سیاست کا اشارہ دے رہے ہیں ؟
دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق اٹک جلسے میں عمران خان نے خلاف توقع اپنی تقریر سے میر جعفر میر صادق کے الفاظ حذف کر دیئے ۔ انہوں نے اس سے پہلے اشارہ دیتے ہوئے میر صادق کی پوری تاریخ بیان کی اور اسے موجودہ حالات سے جوڑنے کی کوشش کی جس کے بعد فوجی ادارے کو جوابی بیان دینا پڑا۔ سابق بیان پر ہی وزیراعظم شہباز شریف اور آصف زرداری سمیت تمام بڑے اپوزیشن رہنماؤں نے عمران خان کے بیان کی مذمت کی تاہم اس کے اگلے روز ہی عمران خان نے واضح کیا کہ وہ میر جعفر شہباز شریف کو کہہ رہے تھے ۔
اس طرح عمران خان نے اپنے بیانیہ میں اچانک ڈرامائی موڑ کا اشارہ دیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے سینئر رہنما عمران خان کو توپوں کا رخ سیاستدانوں کی طرف کرنے کا ہی مشورہ دے چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اٹک جلسے میں عمران خان نے الیکشن کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جبکہ اس سےپہلے الیکشن کمیشن عمران خان کی جانب سے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی استدعا مسترد کرچکا تھا۔
سینئر رہنماؤں کا عمران خان کو توپوں کا رخ صرف سیاستدانوں کی طرف کرنے کا مشورہ
ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی جانب سے پارٹی کی جارحانہ پالیسی میں ترمیم کا مشورہ دیا گیا ہے اسی لئے عمران خان نے اٹک جلسے میں خلاف توقع اداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا اور ایک مرتبہ پھر روایتی اندازمیں اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہا ۔ یاد رہے کہ کچھ دنوں سے عمران خان مولانا فضل الرحمان کا نام نہیں لے رہے تھے تاہم انہوں نے اچانک اٹک جلسے میں پھر مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل کہہ کر جلسے کے شرکا سے نعرے لگوا دیئے ۔
ذرائع کے مطابق عمران خان مولانا فضل الرحمان سمیت سینئر رہنماؤں کے مقتدر حلقوں سے بڑھتے تعلقات کا سخت ردعمل دینا چاہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق عمران خان لانگ مارچ سے پہلے اپنے بیانیہ میں سرپرائز بھی دے سکتے ہیں تاہم یہ سرپرائزحکومت کی عمران مخالف حکمت عملی سے مشروط ہوگا۔