ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست، کیا ذمہ دار رضوان اور بابر ہیں ؟

بشکریہ :ٹم مے ، کرک انفو ڈاٹ کام ۔

یہ حقیقت تسلیم کرنا آسان ہے کہ ٹیم بابر ابتدا سے ہی میچ انگلینڈ کو دے چکی تھی ۔ میلبرن کی روایتی گراسی اور باؤنسی  وکٹ کو الزام دے سکتے ہیں نہ ہی آپ یہ بہانہ تراش سکتےہیں کہ گراؤنڈ بہت بڑی تھی ۔ ظاہر سی بات ہے بڑے گراؤنڈ میں بڑے کھلاڑی ہی کھیلتے ہیں جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان ٹیم کو سمجھانے بھجانے اور گائیڈ کرنے والے آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن  ، جو اسی گراؤنڈ میں پاور ہٹنگ کرتے تھے تو دنیا دیکھتی تھی ۔ اب یا تو ہیڈ ن ٹھیک طرح سے پاکستانی بلے بازوں کو تیز کھیلنے پر قائل نہ کر سکے یا پھر پاکستانی ٹیم  ہی پرانے سٹائل آف کرکٹ سے باہر نکلنا نہیں چاہتی !ورلڈ کپ کا تاج انگلینڈ نے سجا لیا ہے ۔

اس جیت کا کریڈٹ انگلینڈ کو دینا ہوگا مگر ساتھ ہی پاکستان کو بھی الزام دینے میں کوئی قباحت نہیں ۔ اگر پاکستانی اوپنر 180کے سٹرائیک ریٹ سے مار دھاڑ  کے عادی ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی ۔ یہ بہانہ بھی معقول نہیں کہ اس ورلڈ کپ میں تو کسی بھی ٹیم کا کوئی بھی اوپنر نہیں چلا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رضوان اور بابر کونسا پہلے دیگر  میدانوں میں بوم بوم اننگز کھیل چکے ہیں ؟اب زرا بوم بوم کرکٹ کی تعریف بھی سن لیں ۔ اگر آپ چھ گیندوں میں صرف ایک سکور کے لئے تیز بھاگتے ہیں تو آپ ایک بور کرکٹر ہیں ۔ اگر آپ انہی چھ گیندوں میں دو چوکے لگارہے ہیں تو آپ عصر عاضر کی تیز ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں چھائے ہوئے ہیں اور اگر آپ ایک اوور میں دو چھکے لگاپارہے ہیں تو آپ کرکٹ لیجنڈ ہیں اور شائقین کے اصل ہیرو ہیں ۔

انگلش بلے بازوں  نے جس طرح سیمی فائنل میں بھارت کو سیدھا کیا اس کی مثال پاکستانی کرکٹ میں  کم ہی ملتی ہے ۔ لیکن انگلینڈ کے لئے یہ مثال آئے روز سامنے آتی ہے ۔ پاکستانی لائن اپ میں شاہد آفریدی کی کرکٹ کو فراموش کرنا آسان نہیں ۔ آفریدی سے ہر میچ میں طوفانی اننگز کھیلنے کی امید لگانا بے وقوفی تھی مگر شاہد آفریدی کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ کیرئیر ختم ہونےسے چند سال پہلے آفریدی پاور ہٹنگ میں بتدریج نیچے آگیا تھا۔شاہد آفریدی کبھی بھی لیجنڈ نہ بن پایا لیکن یہ بات دلفریب ہے کہ آفریدی کبھی بھی سست رفتار کرکٹ کا قائل نہیں رہا۔ شاہد آفریدی کا جلدی آؤٹ ہونا بابر اور رضوان کی طرح چالیس ، چالیس گیندیں کھیل کر آؤٹ ہونے سے کہیں بہتر ہوتا تھا۔

بلاشبہ ورلڈ کپ کا فائنل میچ پاکستان کے حق میں ہو سکتا تھا اگر بابر اور رضون طوفانی آغاز فراہم کرتے ۔ اس کے بعد حارث رؤف ایکشن دکھاتا ۔ شان مسعود تیز رفتار بیس پچیس ہی کرلیتا تو کافی تھا۔ اس کے بعد افتخار آپےسے باہر ہو جاتا۔ پی ایس ایل میں تو سب یہ دیکھ ہی چکے مگر عالمی کرکٹ اور بالخصوص میلبرن جیسے میدان میں کرکٹ کی اعلیٰ ترین تکنیک درکار ہے ۔ اگر مگر کے کھیل کے بعد پاکستان کا فائنل میں پہنچنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا مگر میرے جیسے کم علم کرکٹ ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں بابر اور رضوان بھلے سے پچاس ، پچاس رنز ضرور داغیں مگر یہ نصف سنچریاں  اٹھائیس سے تیس گیندوں میں مکمل کریں اور پاکستان کرکٹ کو چار چاند لگا دیں ۔ بہرحال انگلینڈ تعریف کا مستحق ہے ۔