دی سپرلیڈ ڈاٹ کام ، پشاور۔ خیبر پختونخوا حکومت کا بعض علاقوں میں طالبان کی موجودگی کا اعتراف مگر کارروائی سے صاف انکار ،ترجمان کے پی حکومت کے مبہم بیان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق کے پی حکومت نے سوات سمیت دیگر علاقوں میں طالبان کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے مگر کارروائی نہ کر نے کا بھی عندیہ دے کر ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت پر تنقید کا جواز فراہم کر دیا ہے ۔ وزیر اطلاعات کے پی کے مطابق طالبان بعض علاقوں میں موجود ہیں مگر انہیں قانون کے خلاف کچھ کرنے نہیں دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سوات، مٹہ ، کبل میں طالبان موجود ہیں ۔ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا جس کی رو سے طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکیں ۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ایسی کوئی ڈیل نہیں ہوئی جس کے تحت طالبان کو کوئی علاقہ دیا گیا ہو اور کارروائی کی اجازت دی گئی ہو ۔ تحریک طالبان پاکستان سے انڈر اسٹینڈنگ ہوئی ہے کہ جو کارروائی وہ کریں گے اس کی ذمے داری قبول کریں گے۔ انہوں نے مزید کہاکہ تحریک طالبان پاکستان ایک تنظیم ہے جو ہمارے خلاف لڑتی رہی ہے۔ ٹی ٹی پی سربراہ کا نام مفتی نور ولی محسود ہے، ان کی رہبری شوریٰ ہے جس میں مختلف علاقوں کے کمانڈرز ممبر ہیں ۔بیرسٹر علی سیف کے مبہم بیان کے بعد سے خیبر پختونخوا حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔
کیا کے پی حکومت پہلے حملوں کا انتظار کرے گی پھر ردعمل دے گی ؟
تجزیہ کاروں کے مطابق کے پی حکومت کی جانب سے ایک جانب واضح اعتراف ہے کہ طالبان موجود ہیں مگر ترجمان نے یہ کہہ کر نا مناسب رویہ دکھایا ہے کہ طالبان جو بھی کارروائی کریں گے قبول کریں گے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان حکومت کی بے بسی اور کمزور رٹ کو ظاہر کرتا ہے یعنی پہلے کارروائی ہونے دی جائے گی اور پھر طالبان کو کہا جائے گا کہ ذمہ داری قبول کرو۔
دوسری جانب یاد رہے کہ چند ہفتوں قبل طالبان نے سر عام ڈی ایس پی کو اغوا کر کے تشدد کے بعد رہا کیا تھا جس پر کسی طالبان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۔ اسی طرح تین روز قبل طالبان کی جانب سے سکول وین کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں ڈرائیور جاں بحق ہوا۔ اس ہلاکت کے خلاف سوات کے مقامی شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر دہشت گردی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ۔