اسلام آباد کی ٹریل فائیو میں سرکاری املاک کا مالک کون ہے ، فوج ، سی ڈی اے یا پھر وائلڈ لائف ؟جسٹس قاضی فائز  نے تاریخی  کیس نمٹا دیا

وقت اشاعت :24فروری2024

ندیم چشتی ، بیورو چیف ، دی  سپر لیڈ ڈاٹ کام ، اسلام آباد۔ اسلام آباد کی ٹریل فائیو میں سرکاری املاک کا مالک کون ہے ، فوج ، سی ڈی اے یا پھر وائلڈ لائف ؟جسٹس قاضی فائز  نے  تاریخی  کیس نمٹا دیا

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد کی ہائیکنگ ٹریل فائیو کی املاک سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔ اس دوران سی ڈی اے اور وائلڈ لائف حکام کے وکیل پیش ہوئے

ٹریل فائیو سے متعلق کیس کا پس منظر

  اس کیس کا پس منظر یہ تھا کہ ٹریل فائیو  میں سرکاری تنصیبات کا تصفیہ چلا آرہا تھا۔ وائلڈ لائف حکام کا موقف یہ تھا کہ ٹریل فائیو مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ ہے اس لئے یہاں موجود املاک وائلڈ لائف  کی ہی ہیں ۔ دوسری جانب سی ڈی اے نے یہاں سے وائلڈ لائف حکام کو نکال کر ان کے دفاتر اور چیک پوسٹ اپنی تحویل میں لے رکھی تھیں  ۔ یہاں ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے جہاں اعلیٰ سرکاری افسران  چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق یہ ریسٹ ہاؤس فوجی افسران ، ان کے اہل خانہ ، سی ڈی اے کے اعلیٰ افسران اور ان کے اہل خانہ اور دیگر اہم بااثر شخصیات کے لئے مختص ہے  ۔ گرمیوں کے ایام میں یہ خاندان  قدرتی جنگل کے عین وسط میں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں ۔

کیس  کی سماعت کے دوران کیا ہوا ؟

 اس حوالے سے کیس  کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سب سے پہلے استفسار  کیا کہ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ مارگلہ نیشنل پارک ہے یا نہیں ؟ انہوں نے استفسار کیا کہ یہ بتایا جائے اگر ایسا ہے تو اسے نیشنل پارک کب قرار دیا گیا ؟ جس پر سی ڈی اے کے  وکیل نے  کہا مارگلہ باقاعدہ نیشنل پارک ہے اور اسے یہ درجہ 1980میں دیا گیا تھا۔

مارگلہ نیشنل پارک سیاحوں کے لئے خصوصی توجہ کا مرکز ہے ۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اسلامی حوالے دیتے ہوئے جنگلات ، چرند پرند کے حقوق کی بھی بات کی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ وائلڈ لائف پارک ہے تو لازمی طور پر محکمہ وائلڈ لائف ہی اس کے نظام کو دیکھنےکا پابند ہے  ۔ یہاں آتشزدگی کے بھی واقعات ہوتے رہتے ہیں اس لئے وائلڈ لائف حکام کی تنصیبات فوری طور پر واپس کی جائیں ۔ ان  کے دفاتر واپس کئے جائیں اور سامان بھی ویسے ہی واپس دیا جائے جیسے پہلے لگایا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ٹریل فائیو سہولت سینٹر واپس لینے کے کیس میں سی ڈی اے کو  حکم جاری کیا کہ وہ سہولت مرکز فوری طور پر وائلڈ لائف حکام کو واپس کریں ۔ انہو ں نے مارگلہ ہلز میں سی ڈی اے کے ریسٹ ہاؤسز سمیت تمام جائیداد کا ریکارڈ بھی مانگ لیا اور سماعت 11 مارچ تک ملتوی کردی۔

سماعت کا حکم نامہ جاری

  چیف جسٹس  آف پاکستان نے حکم نامہ لکھوایا جس میں کہا کہ ٹریل فائیو پر پبلک انفارمیشن سینٹر سمیت تمام دفاتر وائلڈ لائف کو واپس کیے جائیں ۔  وائلڈ لائف بورڈ کا دفاتر سے اٹھایا گیا سامان بھی واپس کیا جائے۔ وائلڈ لائف بورڈ خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنا سامان واپس لگائے تاکہ آتشزدگی کے واقعات سے بچا جا سکے  ۔ بغیر کسی نوٹس کے وائلڈ لائف سے سی ڈی اے نے جگہیں خالی کرائیں۔  سامان بھی نکالا گیا ۔  شہریوں کے بنیادی حقوق میں باوقار زندگی بھی شامل ہے۔  سی ڈی اے  کا طرز عمل نامناسب تھا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے ریسٹ ہاؤس کو عوامی استعمال کے لئے کھولنے کا حکم دیا ۔

جنگل کے عین وسط میں قائم ریسٹ ہاؤس کون استعمال کرے گا ؟

سی ڈی اے کے وکیل نے استدعا کی کہ مارگلہ کا سہولت مرکز سی ڈی اے کو بھی استعمال کرنے دیا جائے جس  پر  چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک چیز ایجاد ہو چکی ہے جسے گاڑی کہتے ہیں آپ  سی ڈی اے دفتر سے گاڑی میں سوار ہو کر جب مرضی مارگلہ چلے جایا کریں ۔ انہوں نے مزید حکم دیا کہ  سی ڈی اے  کی مارگلہ ہلز میں جو بھی  املاک ہیں وہ ظاہر کریں ۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل  کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔

مارگلہ نیشنل پارک میں موجود سہولت مرکز جہاں وائلڈ لائف کو بے دخل کر کے سامان بھی نکال دیا گیا۔ فوٹو کریڈٹ :دی سپرلیڈ ڈاٹ کام

واضح رہے کہ  ابتدائی سماعت اور سپریم کورٹ کے تاریخی حکم نامے کے تحت اس تصفیہ کا حل ہو گیا ہے  اور سپریم کورٹ نے واضح کر دیا کہ نیشنل پارک کا نظام سی ڈی اے  یا  بالواسطہ طور پر پاک فوج نہیں چلائے گی جبکہ یہ معاملات محکمہ وائلڈ لائف    کے ہیں تاہم دوران سماعت فوج کے کردار سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ۔