شاہد رضوی ، دی سپرلیڈ ڈاٹ کام لاہور۔ کی انتہا تو یہ تھی کہ بھئی پہلوان کے پالتو شیر کو بھی ذہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی ، 90کی دہائی سے چلنے والی دشمنی کی روداد ، اہم انکشافات سامنے آگئے ۔
سینئر صحافی شہریار خان نے دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کوبتایا کہ لاہور میں ٹرکاں والا فیملی اور خواجہ برادران میں لڑائی کا باقاعدہ آغاز نوے کی دہائی میں ہوا تھا۔ بلا ٹرکاں والا ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھے ۔ اوائل میں بلا ٹرکاں والا اور طیفی بٹ ایک ساتھ دکھائی دیتے تھے ۔ ان کی دشمنی کس وجہ سے شروع ہوئی زیادہ تر قصے کہانیاں موجود ہیں۔ درحقیقت اس دشمنی کی اصل وجہ کا دونوں خاندانوں کے قریبی افراد کو بھی نہیں معلوم ،تاہم بعض قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ لڑائی دولت، طاقت اور ڈیرہ داری کی بنیاد پر تھی ۔ بلا ٹرکاں والا اس علاقے کی بااثر شخصیت تھے ۔ شاہ عالم چوک میں ان کا پہلوانی کا اکھاڑہ اور ان کے برادر نسبتی کے پالتو شیر ان کی پہچان بنے ۔
شاہ عالم چوک کا یہ ڈیرہ با اثر افراد کی بیٹھک مانا جاتا تھا۔ یہاں ہی کاروباری تنازعے حل ہوتے ۔ پنچایت سی لگتی ۔ گلی محلے کی لڑائی کا تصفیہ بھی اسی ڈیرے پر ہوتا تھا۔ اسی ڈیرے کے ساتھ بلا ٹرکاں والے کی اہلیہ کے بھائیوں سلطان محمود عرف بھئی پہلوان اور بچھو پہلوان کا ڈیرہ بھی ہے ۔نوے کی دہائی میں بھئی پہلوان کے پالتو راجہ نامی شیر کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی ۔ پالتو شیر کئی روز بیمار رہا اور پھر آخر کار مر گیا۔ یہ وہی راجہ نامی پالتو ببر شیر تھا جو بھئی پہلوان کے ڈیرے کی پہچان بنا تھا۔ نوے کی دہائی میں اس شیر کے پنجاب بھر میں چرچے تھے کیونکہ اس دور میں پالتو شیر پالنے کا رجحان ہرگز نہیں تھا۔
نواز شریف کی ایک انتخابی مہم میں بھئی پہلوان نے راجہ شیر کو گوالمنڈی کی گلیوں میں گھمایا ۔لوگ چھتوں پر موجود تھے ہر سڑک پرشیر کو دیکھنے کے لئے رش تھا۔ گوالمنڈی میں طاقت کا یہ مظاہرہ طیفی بٹ گروپ پر رعب طاری کرنے کے لئے بھی تھا۔اسی شیر کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا ۔ یو ں معلوم ہوتا تھا کہ حسد کی انتہا تو یہ تھی کہ بھئی پہلوان کے پالتو شیر کو بھی ذہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی ۔ بھئی پہلوان اور بلا ٹرکاں والا ہر صبح پہلوانوں کی ورزش کا پروگرام رکھتے ۔ ان کے اکھاڑے میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی ۔
یہی وہ بڑھتی طاقت اور شہرت تھی جو اسی علاقے کے دیگر دولت مند تاجروں کو پسند نہیں تھی ۔ یہاں سے ہی حسد کی چنگاری جلی جو کئی سال بعد دشمنی میں بدلتی چلی گئی ۔شہریار خان نے مزید بتایا کہ اس دشمنی کی کوئی ایک وجہ ہرگز نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ محلے کے نوجوانوں کے دو گروپ بہانے سے لڑتے چلے جائیں جس کو موقع ملے دوسرے گروپ کو تشدد کا نشانہ بنا دے ۔ کبھی یہ لڑائی پولیس تک جائے تو کبھی یہ خود آپس میں لڑ کر وقتی صلح پر ختم ہو۔دشمنی کی اصل وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ اس لڑائی کو پاکستانی فلم انڈسٹری نے بھی بڑھایا جب انہی گروپوں ، ان کے ہم خیالوں ، رشتے داروں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کو شش میں فلمیں تک بنائیں ۔
یہ سب حسد اور نفرت کی آگ تھی جو کب ختم ہوگی کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ دونوں گروپوں کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ ہر تہوار میں ہوتا تھا مثال کے طور پر نوے کی دہائی کی بسنت اور پتنگ بازی خاص طور پر کراس فائرنگ پر ختم ہوتی تھی ۔ ایک چھت سے ہوائی فائرنگ شروع ہوتی تو گوالمنڈی کی چھتوں سے بھی جوابی ہوائی فائرنگ شروع ہو جاتی ۔ یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا تھا۔ گوالمنڈی اور شاہ عالم مارکیٹ، بانسوں والا بازار ، نسبت روڈ کے علاقہ مکین اس دشمنی سے بخوبی آگاہ تھے ۔ دوسری جانب گوالمنڈی میں حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا کا راج تھا۔ ان کے ساتھ ایک اور بڑی طاقت خواجہ برادران تھے ۔
خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ اور خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ چند کلومیٹر دور اپنی سلطنت بنائے بیٹھے تھے ۔ خواجہ عقیل اور خواجہ تعریف گلشن کی جائیدادوں اور دکانوں کی تفصیلات کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ اسی دور میں درجنوں دکانیں اور مکان ان کے خاندان کے اہل خانہ کے نام چلے آرہے ہیں اس میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔
گوگی بٹ نے مختلف علاقوں میں اپنے ڈیرے بنائے اور یہی وہ گینگ وار ہے جو محض دشمن داری کے کلچر کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے ۔ اسی دوران مختلف ادوار میں کئی چھوٹے گروپس دونوں دشمن داروں کے ساتھ ملتے رہے ۔ لاہور کے بعض گروپ گوگی بٹ کے ساتھ مل کر طاقت حاصل کرتے رہے جبکہ کئی گروپ بھئی پہلوان ، بچھو پہلوان ، ٹیپو ٹرکاں والا کے ساتھ الائنس بناتا رہے ۔ اس جنگ کا اختتام کب ہوگا یہ بھی کسی کو نہیں معلوم
یہ بھی پڑھیے