بیروت کی بندرگاہ کے قریب 2750ٹن امونیم نائٹریٹ ذخیرہ کیا گیا تھا۔ اس بڑے گودام میں امونیم نائٹریٹ کو ڈرموں میں غیر محفوظ طریقے سے رکھا گیا تھا۔
لبنانی حکام کے مطابق ملک کی سپریم کورٹ نے اس "ذخیرہ "کو محفوظ رکھنے کا حکم دے رکھا تھا۔
اس حوالے سے عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ ذخیرہ خطرناک ثابت ہو سکتاہے ۔ اسے فوری منتقل کرنے کا حکم دیا جائے ۔
عدالت نے حکم جاری نہ کیا اور یوں طویل عرصے سے یہ امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ ساحلی علاقے پر ہی پڑا رہ گیا۔ کمرشل علاقہ ہونے کی وجہ سے مقامی فیکٹری مالکان نے بھی حکام کو خطرات سے آگاہ کیا تھا مگر کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا ۔
کھاد میں استعمال ہونے والے امونیم نائٹریٹ کو زرعی مقاصد کےلئے ہی استعمال میں لایا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سانحہ رونما ہوگیا۔
کیا کسی طیارے نے بم گرا دیا ؟
بیروت کی ساحلی پٹی مکمل اجڑ چکی ہے ۔ دس کلومیٹر کا علاقہ ہیروشیما کی یا ددلا رہا ہے جہاں بڑی قیامت برپا ہوئی تھی ۔
دوسری قیامت بیروت والوں نے دیکھ لی ۔ ایٹمی دھماکے کی طرز پر چھتری نمودار ہوئی اور دیکھتےہی دیکھتے سب کچھ ختم ہوگیا۔ لبنانی میڈیا سے گفتگومیں عینی شاہدین نے دل دہلا دینے والی منظر کشی کی ۔
یہ بھی پڑھیئے : دلہن کا فوٹو شوٹ دھماکے سے متاثر
بندرگاہ کے قریب موجود ایک فیکٹری ملازم نے لبنانی ٹی وی کو بتایا کہ دھماکے سے لاشیں بھی شناخت نہ ہو پائیں ۔ گاڑیوں کو اپنے سامنے پتوں کی طرح بکھرتے دیکھا ۔
احمد رفیقی نے بتایا کہ وہ دیوار کی اوٹ میں کھڑے تھے اس دوران دھماکہ ہوا اور ہر طرف دھوئیں کے بادل چھا گئے ۔
احمد جس فیکٹری میں کام کرتے تھے وہ مکمل منہدم ہوگئی ۔ معجزانہ طور پر وہ محفوظ رہے ۔ انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے وقت وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے ۔ انہیں سر اور کمر میں شدید چوٹیں آئیں ۔
وہ تقریبا آدھے گھنٹے تک بے سود پڑے رہے جس کے بعد ریسکیو اہلکاروں نے انہیں دیگر ساتھیوں سمیت اٹھا کر ہسپتال پہنچایا ۔
احمد رفیقی کے مطابق پہلے یہ معلوم ہوا جیسے کسی طیارے نے بندرگاہ پر بم گرا دیئے ہیں ۔ اس کے بعد بڑی تباہی ہوئی ۔
بیروت میں غذائی قلت کا خطرہ
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں دھماکوں سے گندم کا بڑا ذخیرہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ بندرگاہ کے قریب ہی گندم سٹوریج ہاؤسز تھے ۔
دھماکےسے دو ذخیرہ گاہیں مکمل تباہ ہو گئیں جبکہ متعدد کو جزوی نقصان پہنچا ۔ سرکاری حکام کے مطابق گندم کا ذخیرہ ختم ہونےسے بدترین غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے ۔