تحریک انصاف کی حکومت کو بظاہر درجنوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایسے میں نیب کی کارکردگی پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ۔
ملکی عدلیہ نے اس موقع پر قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لئے اہم کیسز پر نوٹس لے رکھا ہے ۔ جس میں سے ایک نیب تعیناتیوں کا کیس ہے ۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اہم حکومتی ادارے کو آئین اور قانون کی پاسداری کی تلقین کی ہے ۔ سپریم کورٹ نے نیب کو دو ٹوک الفاظ میں شفاف بھرتیوں کی بھی وارننگ دی ۔
سپر لیڈ نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب میں ڈائریکٹر جنرلز کی بھرتیوں پر نوٹس لیتے ہوئے طریق کار وضع کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ اس اہم سماعت کے موقع پر عدالت نے قومی ادارے کے ڈی جی کی سخت الفاظ میں سرزنش کردی ۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈی جی نیب سندھ عرفان منگی پر اظہار برہمی کیا ۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں قانون کی کوئی حکمرانی نظر نہیں آرہی ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ نیب کا کوئی بھی افسر اہل نہیں ۔
کیا کوئی تجربہ ہے ؟تنخواہ بتاؤ کتنی ہے ؟
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور عرفان منگی کا مکالمہ بھی ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیا آپ کو فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ ہے ۔آپ کی تعلیم کتنی ہے ۔ کیا تنخواہ لیتے ہیں آپ ؟
عدالت کے استفسار پر عرفان منگی نے کہا کہ جی مجھے فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں ۔میں ایک انجینئر ہو ں اور چار لاکھ بیس ہزار تنخواہ لیتا ہوں۔
ڈائریکٹر جنرل نیب سندھ کے اس جواب پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برہم دکھائی دیئے ۔ انہوں نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انجیئنر کیسے اتنے بڑے عہدے پر بیٹھ گیا ؟ آپ کو تو فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ ہی نہیں ۔ محض انجینئر ہونے کی بنیاد پر آپ نے اتنا بڑا عہدہ کیسے سنبھال لیا ؟
کیا نیب میں سفارش پر بھرتیاں ہوتی ہیں ؟ ان بھرتیوں کا طریق کار کیا ہے ؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا قواعد نہ بنانے پر نیب کے خلاف ہی ریفرنس بنتا ہے ۔
نیب کے افسروں کی نا اہلی کی وجہ سے کئی کئی سال کیسز چلتے ہیں اور لوگ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ کیا حکومت قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے ؟
سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے افسران کو بھرتی کرنے کی تمام تفصیلات مانگ لیں ۔ اگلی سماعت پرنیب کے تمام ڈی جیز کی تعیناتی کی تفصیلات سے بھی عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔