عتیقہ اوڈھو کی دو بوتلوں کی بھاری قیمت ؟پاکستان کی نامور اداکارہ عتیقہ اوڈھو نو سال دو ماہ اور چودہ روز بعد شراب کیس میں بری ہو گئی ہیں ۔
اس دور میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمود چودھری نےشراب برآمدگی کا از خود نوٹس لیا تھا ۔ جس پر ملک بھر میں میڈیا پر شور اٹھا ۔
الیکٹرانک میڈیا پر دبے دبے الفاظ میں تبصرے ہوئے ۔ بعض تجزیہ کار یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ اتنے مسائل ہیں آخر دو بوتلوں سے ایسے کونسی قیامت آگئی ؟
مشرف ناپسندیدہ شخصیت تھے ؟
پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد افتخار محمد چودھری وکلا برادری کے ہیرو مانے گئے ۔
چار ہزار سے زائد از خود نوٹس کے بعد حکومت وقت نے بھی شور مچایا ۔
توہین عدالت کے خوف سے براہ راست تنقید تو ممکن نہ تھی مگر سیاسی حلقوں میں یہ از خود نوٹس بہت تکلیف دہ محسوس ہوتے تھے ۔
دی سپر لیڈ نیوز نے قانونی امور کے ماہر تجزیہ کار اقبال بسرا ایڈووکیٹ سے گفتگو کی ۔
انہوں نے بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چودھری کی پرویز مشرف سے رنجش فطری تھی ۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ افتخار چودھری تعصب سے کام لیتے تھے ۔مگر ان کے بعض کیسز میں یہ مزاج واضح تھا۔پرویز مشرف ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ فنکار برادری کے پسندیدہ تھے ۔ عتیقہ اوڈھو پرویز مشرف سے کئی مرتبہ مل چکی تھیں ۔
ان کی متعدد تصاویر میڈیا کی بھی زینت بنیں ۔ ایسے میں شراب برآمدگی کا ہلکا کیس ملک کے چیف جسٹس تک پہنچ جانا غیر معمولی واقعہ تھا۔
اقبال بسرا نے مزید بتایا کہ ایئرپورٹ حکام کی ملی بھگت سے اندرون ملک ایسے واقعات عام ہیں ۔
عتیقہ اوڈھو کے کیس میں جرم سے زیادہ شخصیت کے خلاف کارروائی کا عنصر زیادہ واضح لگتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر بوتلیں برآمد ہوئی بھی تھیں توبھی یہ کیس انتہائی معمولی نوعیت کا تھا۔
اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس کو از خود نوٹس لے کر کیس کو اپنی عدالت میں چلانا سمجھ سے باہر ہے ۔
عتیقہ اوڈھو کی آخری سماعت میں کیا ہوا ؟
دی سپر لیڈ کے مطابق راولپنڈی کی سول عدالت میں عتیقہ اوڈھو کے وکیل ایک مرتبہ پھر پیش ہوئے ۔
انہیں جان بوجھ کر مقدمے میں پھنسایا گیا ہے ۔ وکیل نے مزید کہا کہ عتیقہ کو جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش کی تھی ۔
اداکارہ نے انہیں واضح کہا کہ شراب کی بوتل ان کی نہیں ۔ لیکن ایئرپورٹ حکام نے بدنیتی دکھائی۔
شراب ان کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ایئرپورٹ سکیورٹی فورس اور کسٹمز حکام کو طلب کرلیا ۔
عدالت نے فنکارہ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بظاہر عتیقہ اوڈھو کا جرم ثابت نہیں ہوا ۔ سول جج یاسر چودھری نے فیصلہ سناتے ہوئے مزید کہا کہ ان کو باعزت بری کیا جاتا ہے ۔
عتیقہ اوڈھو پر الزام تھا کہ کراچی جاتے ہوئے بیگ سے شراب کی 2 بوتلیں نکل آئی تھیں ۔
اس کے بعد عدالتی حکم پر 7 جون 2011 کو اداکارہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیئے:گل پانٹرہ کے ٹک ٹاک نے آگ لگا دی
اس مقدمے کی کل دو سو دس پیشیاں ہوئیں ۔اس دوران سولہ جج تبدیل ہوئے اور اس طرح یہ کیس التوا کا شکار ہوتا رہا۔
بعض جج صاحبان نے ایک سے تین ماہ تک کیس کو التوا کا شکار رکھا۔ بعض جج دلائل ہی سنتے رہ گئے ۔
اب آزاد محسوس کر رہی ہوں ؟عتیقہ اوڈھو
دی سپر لیڈ نیوز کے نمائندے نے عتیقہ اوڈھو سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا انصاف کی راہ میں بہت دیر ہوگئی ۔
پاکستانی ماتحت عدلیہ میں ایسے ہی کیسز التوا کا شکار ہوتے رہتے ہیں
انہوں نے کہا کہ اب وہ مقدمے سے کلیئر ہو چکی ہیں اس لئے آزاد محسوس کر رہی ہیں ۔
اس سوال پر کہ کیا واقعی بیگ میں شراب کی بوتلیں موجود تھیں ۔ توانہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور اجازت چاہی ۔