شاہ محمود قریشی آخر کس کے ملازم ہیں؟

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج کل خبروں میں بہت جگہ بنا رہے ہیں ۔ لیکن شاہ محمود قریشی آخر کس کے ملازم ہیں؟

یہ جاننے کے لئے باریک بینی سے ان کے حالیہ بیانات کا جائزہ لینا ہوگا۔

شاہ محمود قریشی نے حال ہی سعودی عرب کے حوالے سے جارحانہ بیانات دے کر توپوں کا رخ اپنی جانب کر لیا ہے ۔

وزیر خارجہ نے کشمیر پالیسی پر دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے دوست ملک کو پیغام بھجوایا ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر حکومت پاکستان کے موقف کی حمایت کرنا ہی ہوگی ۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے بیانیہ کا ساتھ دے ۔

بصورت دیگر وہ وزیراعظم عمران خان سے کہیں گے کہ دیگر ہم خیال اسلامی ممالک کی جانب دیکھا جائے جو کشمیر کے حوالے سے بھارت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں ۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان نے گویا ہر طرف آگ لگا دی ۔ سعودی عرب کا ردعمل فطری تھا ۔

یوں سرد مہری بڑھنے لگی ۔۔ پاکستانی اکاؤنٹ میں رکھے سعودی عرب کے چھے ارب ڈالر کی واپسی کا تقاضا سامنے آگیا ۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دورہ چین میں اہم ملاقاتیں کی ہیں جس میں باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا
فوٹو کریڈٹ: چائینہ ڈیلی

ملکی مفادمیں آرمی چیف کو میدان میں اترنا پڑا۔۔

یہی نہیں بلکہ ادھار تیل کا معاملہ بھی گول ہوتا نظر آیا۔ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے آرمی چیف خود سعودی عرب گئے ۔ مگر محمد بن سلمان سےملاقات نہ ہو سکی ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی وزارت داخلہ میں گارڈ آف آنر اور صرف نائب وزیر دفاع سے ملاقات ایک اشارہ تھا جسے پاکستان بخوبی سمجھ چکا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی سرد مہری کیا مانگ رہی ہے ؟آگے کیا ہونے والا ہے ؟

تعلقات خراب ہونگے ؟ یا یہ پاکستان کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے ؟

سپرلیڈ نیوز سے گفتگو میں تجزیہ کار ہارون صدیق اسلم نے کہا کہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ دوست ملک کے تیور واضح ہیں ۔

محمد بن سلمان سے ملاقات نہ ہونا باعث تشویش ہے ۔ یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے آرمی چیف کا دورہ سعودیہ شاہی خاندان سے ملاقات کے بغیر ہی ترتیب دیا گیا تھا۔

آرمی چیف،محمد بن سلمان ملاقات کیوں نہ ہوئی؟

ظاہر ہے ماضی میں جب بھی دورہ سعودی عرب ہوا شاہی خاندان کے ساتھ بیٹھک کے بغیر نہیں ہوا۔

ہارون صدیق اسلم نے ماضی کی ملاقات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ محمد بن سلمان سے انتہائی خوشگوار ماحول میں بات چیت کر چکے ہیں ۔

ایساسوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ آرمی چیف اور سعودی ولی عہد کی ملاقات نہیں ہوگی ۔

ہارون صدیق اسلم نے کہا کہ سفارتی کشیدگی کا تاثر دینے کے لئے جان بوجھ کر محمد بن سلمان نے ملاقات نہیں کی ۔ جس پر سفارتی سطح پر بھی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر سعودی عرب شاہ محمود قریشی کے بیانات سے ناراض ہے ۔ لیکن ظاہر سی بات ہے شاہ محمود کے اندر کوئی اور بول رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی بھی سیاسی حکومت کی مرہون منت نہیں ہوا کرتی ۔

خارجہ پالیسی کون بناتا ہے ؟

کئی ادارے ملکی مفاد میں بہترین پالیسی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ادارے کئی مرتبہ اپنی مثبت تجاویز کو بروئے کار لاتے ہوئے بیانیہ تشکیل دیتے ہیں۔

بظاہر اس میں ملکی مفاد مقدم ہوتا ہے ۔ تاہم بعض مرتبہ سیاسی حکومت اور ادارے آمنے سامنے بھی آجاتے ہیں ۔جیسا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں ہم دیکھ چکے ہیں ۔

نواز شریف نے خارجہ پالیسی اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی اور وزیر خارجہ ہی تعینات نہ کیا۔

ہارون صدیق اسلم کے تجزیہ کے علاوہ میڈیا رپورٹس میں کچھ ایسی ہی خبریں سامنے آرہی ہیں ۔

شاہ محمود اور حکومت ایک پیج پر ہیں

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق شاہ محمود قریشی کشمیر کارڈ کو کھیلتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستانی موقف اجاگر کرنا چاہ رہے ہیں ۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شاہ محمود قریشی عمران خان کے بیانیہ پر چل رہے ہیں ۔ فوٹو کریڈٹ:دی سپر لیڈ فائل

یہ بھی واضح ہے کہ حالیہ بیانات بھی ان کے اپنے نہیں ۔ یعنی پوری سیاسی حکومت کا بظاہر یہی موقف ہے ۔

اس امر کا تاثر کچھ یوں ملتا ہے کہ وزیر اطلاعات شبلی فراز بھی ایک انٹرویومیں شاہ محمود قریشی کے حق میں بول چکے ہیں ۔عمران خان کی حکومت سعودی عرب کے معاملے میں ایک پیج پرہے ۔

وزیراعظم خان بھی ترکی اور ملائیشیا کی طرف جھکاؤ دکھا رہے ہیں جس سے ان کی خارجہ پالیسی کی سمت واضح ہو رہی ہے ۔

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کی فوج سعودی مفادات سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو سکتی ۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب جیسے ملک کو پہلی چوائس حاصل ہے ۔

یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی ہدایات یا بیانیہ کی روشنی میں شاہ محمود قریشی چھکا لگا چکے ہیں ۔

اس معاملے کو بیلنس کرنے کےلئے پاکستانی سپہ سالار کو ملکی مفاد میں میدان میں اترنا پڑا ہے ۔ اورپاک سعودیہ کشیدگی کم کرنے کی منصوبہ بندی کرنی پڑی ہے ۔

لیکن کیاشاہ محمود قریشی کے بیانات سے سول اور عسکری قیادت ایک پیج سے ہٹ جائیں گے ؟ یہ بھی خارج از امکان نہیں ۔