ندیم چشتی ، اسلام آباد۔ میرےعزیزہم وطنو،السلام وعلیکم ۔۔ یہ وہ جانا پہچانا سلام ہے جس کی پاکستا نیوں کو عادت ہو چکی ہے ۔12اکتوبر 1999 کو بھی کچھ ایسا ہی سلام سننے کو ملا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے اس روز حکومت کا خاتمہ کرکےاقتدار سنبھالنے کا اعلان کیا۔ بارہ اکتوبر سے جڑی بہت سی کہانیاں اور مفروضے موجود ہیں ۔ کئی ایسے بھی ہیں جو پہلے کبھی نہیں سنے گئے ۔ بعض تجزیہ کار مانتے ہیں کہ مشرف اور نوازشریف کی حکومت میں تناؤ کارگل کے بعد سے بڑھ رہا تھا۔ اور آخر میں جہاز کو اترنے کی اجازت نہ ملنے سےلے کر نوازشریف کوکھلی دھمکیوں کی باتوں تک کی کہانیاں زیر گردش ہیں ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں محمد نوازشریف کے پاس چند جرنیل گئے اور عایت دینے کی پیشکش کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دیا گیا۔ بعض جرنیلوں نے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے کاغذپر دستخط کرنے کو کہا لیکن نوازشریف نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔جب ان پر دباؤ ڈالا گیا تو نوازشریف نے جرنیلوں کو واضح الفاظ میں کہا کہ کسی صورت اسمبلیوں کو نہیں توڑا جاسکتا۔ مینڈیٹ نہیں چرایا جا سکتا۔
اس انکار کے بعد محمد نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کو نظر بند کر دیا گیا۔ نوازشریف پر پرویزمشرف کے ہوائی جہاز کی ہائی مقدمہ درج کردیاگیا ۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نوازشریف کو عمر قید کی سزاسنائی ۔
جنرل مشرف نے اپنے تبادلے کو ماننے سے انکار کیا تھا
بارہ اکتوبر 1999کو نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف کو چیف آف دی آرمی سٹاف کے منصب سے برطرف کرکے انکی جگہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف تعینات کردیا تھا تاہم جنرل پرویزمشرف نے حکم ماننے سے انکار کردیا اور اپنے ہم خیال ہائی رینک افسروں کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔
پرویز مشرف نے آئین کو معطل کرکے پی سی او نافذ کیا۔اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں فل کورٹ بنچ نے پرویزمشرف کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف سید ظفرعلی شاہ کی آئینی درخواست پرفیصلہ سناتے ہوئے مشرف کےٹیک آور کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا۔ پرویز مشرف کوپارلیمنٹ کے بغیرہی آئین میں ترامیم کا اختیار مل گیا۔
پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیگٹو بنے اور احتساب کا نعرہ لگا کر اپنا منشور قوم کے سامنے رکھا ۔ پرویز مشرف آٹھ سال اقتدار سنبھالے رہے ۔ اس دوران سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا یا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔2002کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ(ق) وجود میں آئی لیکن سیٹیں حاصل نہ کر سکی ۔ پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ گروپ بنایاگیا لیکن اسکے باوجود بھی میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بن گئے ۔ پرویز مشرف کے دور کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بدترین قرار دیا جاتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیئے :منتخب حکومت کی مدد جاری رکھیں گے ، آرمی چیف
بعض تجزیہ کاروں کےمطابق امریکی جنگ میں شمولیت سنگین غلطی تھی ۔ امریکی اتحادی بن کر مفادات کو ٹھیس پہنچی تاہم معاشی صورتحال بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی ۔
مشرف دور میں دہشت گردی کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا
اسی دور میں ملک میں دہشت گردی کا بدترین سلسلہ چل نکلا جس سے عام شہریوں کے ساتھ پاک فوج کا بھی بہت نقصان ہوا۔ واضح رہے کہ نوازشریف کی حکومت بھارت سے تعلقات بہتر بنا رہی تھی ۔ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کے ذریعے لاہور آکر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن کارگل کی جنگ نے امن کو داؤ پر لگا دیا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب (یہ خاموشی کہاں تک)میں لکھا ہے کہ کارگل مہم جوئی کی سول حکومت کو خبر نہ ہونے دی گئی ۔ یہ پلان صرف مشرف کی سطح کے جرنیلوں تک محدود تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کئی دنوں سے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹانے کےلئے پلاننگ ہوتی رہی ۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن آج بھی اپنے زخموں کے حوالے سے قوم کو بتاتی رہتی ہے ۔ بارہ اکتوبر کی کہانی نے یقینا پاکستانی سیاست پر بہت ہولناک نتائج مرتب کئے تھے ۔
۔