گیبریل گارشیامارکیز،تنہائی کےسوسال اور میں ۔۔ پچھلے کئی مہینے سے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے گارشیا مارکیز کی کتابوں پر معززین کے تبصرے نظر سے گزرے۔
پچھلے دنوں ڈاکٹرنعیم کلاسرا کا اردو ترجمہ "تنہائی کے سو سال” کے نام سے ہاتھ لگا ۔کتاب پر موجود مارکیز کے سنجیدہ چہرے کو ایک نظر دیکھا اور کتاب لے کر بیٹھ گئی۔
ناول کے شروع میں بوئندا خاندان کا شجرہ ہے۔ جس کی مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی اور میں اشو لال کا لکھادیباچہ پڑھنے لگی۔پہلے ہی صفحے پر نوآبادیاتی نظام،صنعتی انقلاب، سرمایہ داری، کمیونزم، کولونیلزم جیسے الفاظ پڑھے تو میں ڈر گئی کہ۔۔ میں بہت چھوٹے دل و دماغ کی ہوں ۔۔اور یہ بڑی بڑی اصطلاحات مجھے اکثر ڈرا دیتی ہیں۔۔
کتاب واپس بک شیلف تک پہنچانے پر مجبور کر دیتی ہیں
لیکن ساتویں صفحےکے آغاز میں اشو لال کے ایک جملے نے مجھے پکڑ کے بٹھا لیا۔
"ہر بستی یقینا کسی نہ کسی پہلے انسان نے بسانی ہوتی ہے۔ جس طرح بندہ بڑا ہوتا ہے اسی طرح جگہیں بھی بڑی بوڑھی ہوتی ہیں اور بالآخر مر جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک بستی کی کہانی۔۔تنہائی کے سو سال میں ملتی ہے۔”بس اس کے بعد میں تھی، میرا کمرہ تھا، تنہائی تھی اور سو سال کا سفر تھا ۔
جوزےارکیدو بوئندا اپنی بستی ماکوندوکا آدم ہے ۔جس پر قدرت نے حیرت کے تمام در وا کر دئیے۔اور اس کی حوا (ارسلا)ہر طرح کے حالات میں بوئندا خاندان کے کھونٹے سے بندھی رہی۔
ماکوندو وہ بستی ہے جہاں اپنی کسی غلطی پر وہ جنت سے نکلنے کے بعد آباد ہوئے ۔
ارسلا نےاس نئی دنیا میں اپنے خاندان سے فطری محبت اور تربیت کا جذبہ لے کر اپنا گھر بسایا
لیکن سزا(سُور کی دُم) کے خوف نے کبھی بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔سادہ لوح لوگوں کی اس بستی میں پکھی واس رنگینیاں لے کر آئے۔
ملکیا دیس ہر دفعہ نئے بہروپ میں ماکوندو کی تقدیر بدلنے کے لیے موجود ہوتا۔سفید برف سے نقرئی مچھلیوں تک۔۔۔۔۔اڑن قالین سے ریل گاڑی کی ایجاد تک سنسکرت میں لکھے بوسیدہ اوراق میں ملکیا دیس کےعلم کا نورموجود رہا۔
ملکیا دیس کے علم اور جوز ے آرکیدو کی محنت نے ماکوندو کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ لیکن ترقی کی طویل راہ طےکرتے ہوئے ماکوندو کے باسیوں نے اپنے تجربات سے یہی سیکھا کہ تنہائی ہی انسان کی ازلی اور ابدی ساتھی ہے۔
ماکوندو کے گھر کے باسی تنہائی کے اتنے عادی تھے کہ وہ ہر طرح کے شورشرابے میں بھی اپنی اس تنہائی کے ساتھ ہی وقت گزارنا پسند کرتے ۔کبھی فرنینڈا کی بیٹی کی پچاس سہیلیاں اور کبھی ارلیانو کے 17 بیٹے بھی گھر میں موجود ہوتے تو بھی تنہائی اس بستی سے کبھی رخصت نہ ہوتی۔
یہ بھی پڑھیئے : زحل ستارے کی محبوبہ
کرنل ارلیانو بوئندا
یہ جنگجو بھی 30 جنگوں میں حصہ لینے کے بعد آخر کار اپنے ہتھیاروں سے زیادہ کتابوں کو ترجیح دیتا ۔لبرل اور کنزرویٹو فسادات سے اکتا کر آخری وقت تک اپنی شاعری کا ٹرنک اٹھائے پھرتا۔جوزےآرکیدو بوئندا اور کرنل ارلیانوبوئندا اپنی تمام تر طاقت، ذہانت اور محنت کے باوجود شاہ بلوط کے درخت کے نیچے تنہائی کے عالم میں مر گئے۔
جابجالال دیمک، لال بیگ اور زرد تتلیاں زندگی کے حسن کو نگلتی رہیں۔ماکوندو کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی گئی اور ارلیانو ہرجنم میں خاموش تر ہوتا گیا ۔
پکھی واسوں کے علوم ،ارسلا کی دعائیں ،بوئندا کی جنگیں، پیلار تنتیرا کے پَتے،پیڑا کوٹس کے جادو اور لاٹری کچھ بھی اس ازلی اور ابدی تنہائی کا مداوا نہ کر سکا۔ماکوندو کے بسنے سے اجڑ جانے تک کہانی کا آفاقی کردار تنہائی ہے۔مارکیز نے دل چھو لیا۔گیبریل گارشیامارکیز،تنہائی کےسوسال یقینا ایک شاہکار ہے ۔
One Comment