SUPER AFSANA

کاش اس باغی اورفحش نگارکےکرب کوسب محسوس کرسکیں

  کاش اس باغی اورفحش نگارکےکرب کوسب محسوس کرسکیں ۔ منٹو ایک احساس کا نام ہے اور احساسات پہ بند کیسے باندھا جا سکتا ہے ؟مگر احساس سے عاری لوگوں سے یہ سوال فضول ہے

لکھاری رخشندہ بتول کا تعلق جہلم سے ہے ۔ گورنمنٹ کالج فار ویمن میں شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔ آپ کے کئی افسانے اور تحاریر مختلف فورمز پر شائع ہوچکی ہیں ۔

 منٹو سے محبت سچ سے محبت ہے ۔اور سچ سے محبت کے لئے بہادر ہونا پڑتا ہے ۔اپنے مکروہ خدوخال کو کسی شفاف آئینے میں دیکھنے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا ۔سیاست کبھی بھی پورے سچ کی قائل نہیں رہی اسی لئے منٹو کبھی بھی سیاسی شخصیات کا پسندیدہ نہیں رہا ۔۔

بغاوت اور سیاست کی دوستی کہاں ممکن ہے بھلا ۔ یہ سماج ہر دور میں یہ چاہتا ہے کہ زخم کو پھول کے لبادے میں پیش کیا جائے ۔سچ بھی لکھا جائے اور وہ کڑوا بھی نہ ہو ۔جن ننگے حقائق کو منٹو نے ننگا ہی پیش کردیا انھی حقائق کو ہر طرح کے درزیوں نے بھانت بھانت کے لباس بھی پہنائے اور ہر لباس کی من چاہی قیمت بھی وصول کی ۔مگر غریب منٹو کا ننگا سچ پھر بھی معاشرے کی آنکھوں میں چبھتا رہا ۔

ٹھکرائے ہوئے لوگوں کی کہانیاں لکھنے والے کو ہمیشہ ٹھکرانے کی کوشش کی جاتی رہی ۔دبا دیے جانے والے کرداروں کو سامنے لانے والے کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ۔ اس کی صداقت میں ہوس کو تلاشا جاتا رہا ۔مگر اس کی کہانیوں میں موجود ننگے جسم قاری کے جذبات کو ابھارنے کی بجائے اس کے جسم پر کپکپی طاری کردیتے ہیں ۔پڑھنے والا اس ننگے پن میں جھانکنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔لفظ کوڑوں کی طرح اس کے جسم پر برسنے لگتے ہیں ۔

کہانی سے لذت کشید کرنے کے بجائے اس کا حلق کڑوا ہونے لگتا ہے اسے اپنے اردگرد منٹو کے کردار چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور۔۔ وہ حیران رہ جاتا ہے کہ وہ حقیقت جو ہم خود سے بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں اس نے دنیا کو سنا ڈالی۔

یہ بھی پڑھیئے: با ادب سے بے ادب کا سفر

اس سچ سے تو سب خوفزدہ ہیں ۔۔ اسی لئے تو منٹو کی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اس سچ کو جھوٹ جھوٹ کہہ کرچھپانے کی کوشش کرتے رہے جس سے ہم سبھی واقف ہیں ۔مگر ہم میں منٹو جتنی جرات نہیں کہ ہم اپنے خون کی الٹی سے اپنا سفید کرتا تر کرسکیں ۔ اس جرات مندی کی سزا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سچ بولنے والے کو باغی کہا جائے ۔سیدھے سادے کہانی کار کو فحش نگار کہا جائے ۔ کاش!اس باغی اور فحش نگار کے کرب کو سب محسوس کر سکیں ۔

Related Articles

Back to top button