باادب سےبےادب

باادب سےبےادب ۔۔ ٹرکوں کے پیچھے اکثر لکھا ہوتا ہے “پسند اپنی اپنی”۔یہ بات سمجھانے کی تو قطعاًضرورت نہیں کہ انسان کے لیے دوسروں کو خوش کرنے کے واسطے اپنی عادات بدلنا آسان نہیں۔

لکھاری رخشندہ بتول کا تعلق جہلم سے ہے ۔ آپ گورنمنٹ کالج فار ویمن میں شعبہ تدریس سے منسلک ہیں ۔

اگرعادات زیادہ بری نہیں اور معاشرے کے لیے نقصان دہ نہیں۔۔ تو ان کا بدلنا کوئی ایسا ضروری امرنہیں۔
ہمارے بڑے اکثر ایک پنجابی کہاوت سنایا کرتے تھے(پئی آں نہیں جاندیاں )یعنی جو عادت پڑجائےوہ آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔جیسے میری کسی بہن کو نئے کپڑے خریدنے کا شوق ہو یا میرے کسی بھائی کو کبوتر پالنے کا شوق ہو ۔۔بالکل ایسے ہی اسے ہماری قسمت کی خرابی سمجھیے کہ ہمیں شروع سے ہی اشعار پڑھنے اور یاد رکھنے کا شوق رہا۔شروع میں تو اپنے شوق پر بہت فخر تھا۔ جہاں کسی نے شعر سنانے کی فرمائش کی جھٹ سے شعر سنایا اور سامعین کے ساتھ ساتھ خود کو بھی داد دی۔

اس زمانے میں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ شاعری ہمارے کردار پر اس قدر اثر انداز ہونے والی ہے۔جیسے جیسے تجربہ بڑھتا گیا تو ہمارے شوق میں بھی پختگی آتی گئی۔اب ہم موقع محل کے مطابق برجستہ علامتی اشعار کا استعمال کرتے ۔وہ لوگ جن کا تعلق ادب سے تھا ان کی حد تک تو ٹھیک رہا لیکن جب حلقہ احباب وسیع ہوا تو اندازہ ہوا کہ یہ شاعری کا شوق تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔
ایک رات ہمارے گھر کی بجلی خراب تھی مچھروں اور بچوں کی روں روں نےسونے نہ دیا۔ صبح ہوئی تو ہمارے عالی دماغ میں یہ شعر بار بار جھانکتا ۔

ایک ہی مسئلہ عمر بھر حل نہ ہوا۔۔ نیند پوری نہ ہوئی خواب مکمل نہ ہوا

اب بالکل اسی طرح جیسے کوئی بہن نیا سوٹ خریدے تو اس کو پہن کے تصویر بنا لے۔یامیرا کوئی بھائی اپنے کبوتر کی ویڈیو بنائے۔۔ہم نےبھی اپنی سوجی آنکھوں کی تصویر بنائی اور ساتھ یہ شعر لکھ کے سٹیٹس اپ لوڈ کر دیا ۔بس پھر کیا تھا کسی سہیلی کا میسج آیا کہ بہت افسوس ہوتا ہے تمہاری ایسی حالت دیکھ کر۔۔
کسی نے کہا ۔۔ کتنی بے چین ہو تم۔۔
ایک محترمہ فرمانے لگیں کہ ۔۔ تنہائی کے عذاب کو آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے میم۔۔۔
اور کسی نے تو نیند کی گولیوں کے نام تک بھیج دیئے۔
ایک دفعہ ناصر کاظمی پر لیکچر دینا تھا۔تیاری کے دوران ایک شعر بار بار زبان پر آتا۔سو ہم نے اپنی ایک تصویر کے ساتھ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا۔
شعر کچھ یوں تھا کہ

میرے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
جھٹ سے میری ایک سینئر کا پیغام موصول ہوا۔۔۔ اے لڑکی لگتا ہے ڈپریشن نے دوبارہ حملہ کر دیا ؟
ایک چاپلوس جاننے والی یوں گویا ہوئیں ۔۔ آپ چاہیں تو اپنے تمام دکھ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں ۔
میری چچازاد فرمانے لگیں۔۔ یار تم اپنے شوہر کو مجبور کیوں نہیں کرتی کہ پاکستان واپس آ جائے۔۔۔

ایک سہیلی جس کا شوہر میرے شوہر کی طرح بیرون ملک رہتا تھا،کہنے لگی۔۔ آہ ۔۔میرا اور تمہارا دکھ ایک جیسا ہے۔
ایک رنگین مزاج ہم جماعت کا پیغام آیا۔۔ آپ جب بال کھول کے یونیورسٹی آتی ہیں تو ناصر کے شعر کو مجسم کر دیتی ہیں۔۔
میں ہکا بکا رہ گئی کہ واقعی ناصر کی شاعری آفاقی ہے۔

ہر ذی روح نے وہ تمام معانی اخذ کرلیے جن کا ہماری سوچ سے یا ناصرکے اس شعر سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔

ایسی بہت سی عبرتناک مثالوں کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی شاعری کے ذوق سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔۔ لیکن کم ازکم آئندہ اپنی فطرت کے رومان کو پس پشت ڈال کر اسٹیٹس اپ لوڈ کرنے کا شوق پورا کریں گے۔

بہت سوچ سمجھ کر ہم نے اقبال کا انتخاب کیا۔

ایک شام بازار سے واپسی پر شہر کی روشنیوں کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا۔تصاویر اچھی آئیں سو گھر آتےہی اقبال کے اشعار کے ساتھ لگا دیں

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو (اقبال)


پہلا پیغام جو موصول ہوا وہ کچھ یوں تھا۔۔ لڑکی خدا نخواستہ آج خودکشی کا ارادہ تو نہیں؟
میری بہن کہنے لگی۔۔ لوگوں میں رہنا سیکھو تو ایسا نہ ہو۔
ایک صاحب فرمانے لگے۔۔ اقبال کے شعر میں ایسی مایوسی کس طرح آسکتی ہے؟مایوسی کفر ہے بیٹا۔
میں نے سوچا میں اپنے ساتھ ساتھ اقبال کو بھی بد نام کرواؤں گی سو اسٹیٹس ہٹا دیا۔

اس دن میں نے سنجیدگی سے سوچا کہ کاش مجھے بھی بس کپڑوں جوتوں میں دلچسپی ہوتی یا پھر کبوتر ہی پال لیتی۔ لیکن یہ شاعری۔۔۔۔

خیر اس کے بعد موئے اسٹیٹس سے توبہ کی لیکن جو لوگ ہمارے شاعری کے شوق سے واقف تھے اپنی ٹھرک کی پٹاری کھولنے سے کبھی باز نہیں آتے۔

پچھلے دنوں ایک شادی میں جانا ہوا۔ہمارے ایک قریبی رشتہ دار جن کا ادب سے تعلق فقط بارہویں جماعت تک رہا،ہمیں دیکھتے ہی ماشا اللہ کہا۔۔ اور اپنی ادبیت کا رعب ہم پر جمانے کی خاطر گیارہویں جماعت میں رٹّا ہوا ایک شعر ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنانے لگے۔

نازکی ان کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
ہم نے دانت پیستے ہوئے کافی سخت لہجے میں جواب دیا۔۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
لیکن ان کی ڈھٹائی میں ذرا برابر فرق نہ آیا اور اپنے تمام پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے مزید لہک کر بولے

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

یہ بھی پڑھیئے :زحل ستارے کی محبوبہ

One thought on “باادب سےبےادب

Comments are closed.