SUPER FEATURE

ایک نیک دل طوائف کی کہانی

ایک نیک دل طوائف کی کہانی ۔۔ انڈیا میں امرتسر سے تقریباً 35 کلو میٹر دور واہگہ بارڈر کی جانب ایک "پُل کنجری” ہے۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی محبوبہ، بیوی مہارانی موراں سرکار کے لیے بنایا تھا۔کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔

سید قرب عباس سوشل میڈیا صارف اور ایک لکھاری ہیں۔ سماجی مسائل پر لکھتے ہیں ۔ ان کی مختلف تحاریر سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔

رقص کے چرچے دور دور تک تھے۔ ایک مرتبہ "شاہی برادری” میں ناچ کے لیے بلایا گیا، وہاں اکیس سالہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو دیکھا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔موراں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر رقص کے لیے شاہی برادری، لاہور آنے جانے لگی۔ ایک مرتبہ شاہی برادری پر رقص کے لیے آ رہی تھی تو ہنسالی نہر میں موراں کا جوتا گِر گیا۔ جب ننگے پاؤں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچی، مہارجہ نے احوال سن کر بنسالی نہر پر فوراً "پل موراں” بنا دیا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے۔

دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں۔ امرتسر یا لاہور میں ملتے تو روایتی  و مذہبی سماج کے لیے یہ تعلق ناقابلِ برداشت تھا۔ لہذا ان دونوں شہروں کے درمیان "پل موراں” کے قریب ایک جگہ پر ملاقات کے لیے مقام بنایا گیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں سے شادی کے لیے کہا تو اس نے اپنے والد سے اجازت کے بعد مہاراجہ سے شادی کر لی ۔جو کہ سکھ مذہبی حلقوں میں ہلچل مچا گئی کہ ایک سکھ مہاراجہ کسی مسلمان طوائف سے کیسے شادی کر سکتا ہے؟

رنجیت سنگھ کی 46ویں مسلمان طوائف بیوی موراں ہی تھی۔۔

اس جرم کی سزا کے طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑے پڑے اور کچھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے انتخاب پر قائم رہا۔ موراں کو سرکاری نام "موراں سرکار” دیا گیا۔ چونکہ یہ کشمیری رقص کے فن کی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی ۔۔سو مہاراجہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے موراں سے مشورہ لیتا۔

مہاراجہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے موراں سے مشورہ لیتا۔
فرضی تصویر

مہاراجہ رنجیت سنگھ کی چھیالیس بیویوں میں سے ایک موراں ہی تھی جس کے نام کے سکے بھی چلے۔موراں خود ایک طوائف تھی اس لیے اس نے طوائفوں کے مسائل کو مہاراجہ رنجیت کی مدد سے حل کروانے کی کوشش کی۔ انہیں سماج میں انسانی وقار دلوایا۔ اپنی حویلی میں روز عدالت لگاتی۔ عام لوگ اس کے پاس آ کر اپنے دکھ سناتے۔وہ جس حد تک ممکن ہوتا مدد کرتی ۔

یہ بھی پڑھیئے: ضمیر اختر جیسے بھی تھے فرقہ واریت کے خلاف تھے۔

 کسی نے آ کر کہا مسجد بنوا دو، موراں نے بنوا دی۔ کسی نے آ کر کہا کہ مندر بنوا دو، اس نے مندر بنوا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ موراں نے عوام میں اپنا پُروقار مقام بنا لیا اور  دِلوں پر راج کرنے لگی۔لاہور شاہ عالمی کے قریب آج بھی مسجدِ طوائف موجود ہے۔ جس کا نام کچھ سال پہلے مسجدِ موراں کیساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح پُل کنجری کو بھی اب پُل موراں کہا جاتا ہے۔موراں محبت، انکسار و عجز کی داستان کے طور پر ہر روپ میں لوگوں کےدرمیان زندہ ہے۔ کوئی اسے کنجری کہتا ہے۔ کوئی طوائف، کوئی مائی موراں، کوئی موراں سرکار اور کوئی عوامی ملکہ۔۔۔

Related Articles

Back to top button