قاسم چوہان، دی سپر لیڈ ، کراچی ۔ کراچی سرکلرریل پرحکومت کےبلندوبانگ دعوے سامنے آئے ہیں ۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے پھر دعویٰ کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا پہلا فیز رواں مالی سال میں ہی مکمل ہو جائے گا۔
سرکلر ریلوے کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں اسد عمر نے کہا کہ یہ منصوبہ مکمل طور پر 2023میں مکمل ہوجائےگا۔
اس منصوبے میں نجی سیکٹر کو بھی شامل کیا جائےگا۔ سرمایہ کاری کے بہت مواقع موجود ہیں ۔ وزارت ریلوے کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔منصوبے پر تمام پہلوؤں سے کام ہو رہا ہے ۔
اس اہم اجلاس میں سیکرٹری ریلوے ، چیئرمین پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی شریک ہوئے ۔
حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ کے سی آر منصوبے کے مختلف مراحل پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ مختلف مقامات پر انڈر پاسز اور فلائی اوور بھی بنیں گے ۔ واضح رہے کہ انڈرپاسز کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو دیا جا چکا ہے ۔
وفاقی وزیر اسد عمر کا 2023تک مکمل بحالی کا دعویٰ
اجلاس میں اسد عمر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ کراچی کے عوام کے لئے سود مند ہوگا۔ ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات مہیا کرے گا۔ یہ منصوبہ سرمایہ کاری کےلئے بھی بہت پر کشش ہے ۔ نجی سیکٹر کو آگے آنا ہوگا۔
کراچی سرکلرریلوے کے حوالے سے تجریہ کاروں اور ماہرین کی رائے خاصی پیچیدہ دیکھی گئی ہے ۔ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ سرکلر ریل کی بحالی کےلئے 1999سے کوشش ہو رہی ہے مگر آج تک اس کا کوئی قابل عمل منصوبہ سامنے نہیں آسکا۔
منصوبے کے راستے میں پکی تجاوزات قائم ہیں جن کو گرانے اور متبادل جگہ دینے کے لئے بھی اربوں کے فنڈز درکار ہیں ۔
نجی تعمیراتی کمپنی ارتھ آورپرائیوٹ لمیٹڈ کے سی ای او نے سپر لیڈ نیوز سے گفتگومیں بتایا کہ تحریک انصاف کے دعوے محض دعوے ہیں ۔
منصوبے کی اصل حالت میں بحالی آسان کام نہیں ۔۔
صرف چند سڑکوں کو ملا کر پرانی سرکلر ریل کو بحال کرنے کا دعویٰ کرنا مضحکہ خیز ہے ۔
2005 میں جاپانی کمپنی منصوبے کے لئے آسان شرائط پر قرض دینے کو تیار ہو گئی تھی مگر کام شروع نہ وہ سکا ۔ تب سے اب تک یہ منصوبہ کاغذوں کی حد تک ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت گو کہ منصوبے کو مکمل کرنے میں سنجیدہ ہے مگر حقائق کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں ۔ کراچی کا نقشہ اور طرز تعمیرات بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے ۔
اصل سرکلر ریل چلانا تو بہت مشکل ہے تاہم حکومت نئے روٹ اور نئے پلان کےساتھ منصوبہ مکمل کر سکتی ہے ۔
7 جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے لیے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی تھی ۔
منصوبہ کب شروع ہوا ؟
پاکستان ریلویز نے کراچی میں آمدورفت کے لئے 1969میں اس منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن سے شروع ہو کر یہ ٹرین لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی شہر کے مرکزی ریلوے سٹیشن تک چلائی جانی تھی ۔
مرکزی ریلوے لائن پر بھی لانڈھی اور کراچی شہر یعنی ملیر چھاؤنی کے درمیان لوکل ٹرینیں چلائی گئی تھیں ۔
انیس سو ستر اور 1980ء کی دہائی میں یومیہ 104ٹرینیں بھی چلائی گئیں جس سے شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہ رہا۔
یہ بھی پڑھیئے:مجھ پر ظلم کے 35سال کون واپس کرے گا؟
کراچی کی حالت تین سال میں بدل دیں گے ، آرمی چیف
ان ٹرینوں میں 80 مرکزی لائن پر جب کہ 24 لوپ لائن پر چلتی تھیں ۔ 1990ء کی دہائی کے شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی دیکھنے میں آئی ۔
ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے کو چھوڑنا شروع کردیا ۔ یوں بس سروس نے اس ٹرین کے سفر کی جگہ لے لی ۔ آخر کار 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی زیادہ تر ٹرینیں خسارہ کی وجہ سے بند کر دی گئیں ۔
One Comment