بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
دی سپر لیڈ، لاہور۔ پی ڈی ایم جلسہ کامیاب یاناکام؟بی بی سی کی رپورٹرکاآنکھوں دیکھاحال سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا۔ نامہ نگار ترہب اصغر نے کیا دیکھا ؟انہی کی زبانی جانیے ۔
بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر مینارِ پاکستان پر موجود تھیں ۔ لکھتی ہیں ۔۔۔
کل صبح جب کوریج کرنے کے لیے مینار پاکستان کی طرف روانہ ہوئی تو سوچ رہی تھی کہ اگر راستے بند ہوئے یا رکاوٹیں ہوئیں تو کس راستے سے مینار پاکستان تک پہنچوں گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، پورے شہر میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں لگائی گئی اور میں باآسانی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
آزادی پل پر درجنوں افراد جن میں فیملیز بھی شامل تھیں، اپنی سواری سائیڈ پر لگا کر تصاویر بنوانے کے علاوہ جلسہ گاہ کا نظارہ بھی کر رہے تھے۔ مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ سیاسی جماعت کے کارکنان کی جانب سے انتظامات پورے ہو چکے تھے اور لوگوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھی۔
صبح سے لے کر دوپہر کے اوقات تک جلسہ گاہ میں جن زیادہ تر کارکنان سے ملاقات ہوئی ان میں ایک بڑی تعداد پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والوں کی تھیں۔
مینار پاکستان کے پاس آسمان کی طرف دیکھا تو ایک سفید رنگ کی پتنگ اڑتی دکھائی دی۔ اسے اڑانے والے شخص کے پاس گئی تو وہ تو ایک نہیں چار مرد تھے جو باری باری پتنگ اڑا رہے تھے۔ ان سے گپ شپ کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ وہ بلوچستان سے جلسے کے لیے آئے ہیں۔
دو بجے کے بعد خواتین اور بچوں سمیت کئی شرکا ٹولیوں کی صورت میں آنا شروع ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا تعلق لاہور سے تھا۔ اسی دوران مختلف چینلز کے نمائندگان اور پرانے دوستوں سے بھی ملاقات اور گپ شپ کا موقع ملا۔ جلسے کی کوریج کرنے والا ہر صحافی اپنا الگ الگ تجزیہ دے رہا تھا۔
کسی نے کہا کہ ’دو بج گئے ہیں لیکن ابھی تک اتنا ہجوم اکھٹا نہیں ہوا‘ تو کسی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کم از کم پنڈال تو بھر ہی لے گی۔ اب صحافیوں کے ملے جلے تجزیے تھے۔ لیکن ایک سوال جو تقریباً ہر صحافی کو ہی ان کے چینل کی جانب سے پوچھا جا رہا تھا، وہ یہ تھا کہ جلسہ گاہ میں کتنے لوگ ہیں؟
مینارِ پاکستان پر موجود صحافی اپنے اپنے اندازے کے مطابق رپورٹ کر رہے تھے۔ کچھ ڈرون کیمرے سے فوٹیج بنا رہے تھے تو کوئی سٹیج کے سامنے سے فوٹیج بنانے میں مصروف تھا۔ چند افراد کو جلسہ گاہ کے آخری سرے سے فوٹیج بنانے کی ہدایات بھی موصول ہوئیں اور کوریج کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔
بی بی سی کی نامہ نگار کے مطابق جب شام ڈھلنا شروع ہوئی تو جلسہ گاہ میں شرکا کی تعداد بڑھنے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ جلسہ گاہ بھر گئی اور آزادی پل پر اور گراؤنڈ سے باہر بھی لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔
لیکن جیسے جیسے جلسہ گاہ میں شرکا کی تعداد بڑھنے لگی، ٹی وی چینلز پر ماحول بھی بدلنے لگا اور کئی رپورٹرز یہ تاثر دیتے نظر آئے کہ شاید جلسہ گاہ خالی ہے اور مینارِ پاکستان پر شرکا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔۔۔ اس موقع پر پاکستان تحریکِ انصاف کے بیشتر رہنما بھی ان چینلز کے کلپ شئیر کرتے اور پی ڈی ایم کے جلسے کو ’فلاپ شو‘ قرار دیتے نظر آئے۔
رات گئے تک فیصل جاوید اور علی حیدر سے لے کر شہباز گل تک تحریکِ انصاف کے تقریباً سبھی رہنماؤں، آفیشل اکاؤنٹس اور مداحوں نے بار بار مختلف ویڈیوز کے ذریعے لاہور کے جلسے کو ’فلاپ شو‘ قرار دیتے ہوئے یہی موقف دہرایا کہ مینارِ پاکستان کا گراؤنڈ خالی ہے اور جلسہ ناکام ہو چکا ہے۔
پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی ایسی ہی ایک ویڈیو شئیر کی جس میں گراؤنڈ کا بیشر حصہ خالی نظر آتا ہے۔ انھوں نے طنزیہ انداز میں سماجی فاصلوں کا خیال رکھنے پر عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا شکست خوردہ عناصر کے افراتفری اور کورونا پھیلانے کے ایجنڈے سے الگ رہ کر عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ناکام جلسیوں کے بعد زندہ دلانِ لاہور نے بھی اپوزیشن کی ناکام سیاست پر مہر ثبت کر دی ہے۔
اس کے جواب میں وزیرِ اعلیٰ کے ٹرولنگ سکلز کی تعریف تو بہت ہوئی لیکن بیشتر سوشل میڈیا صارفین سے لے کر صحافیوں نے اسی مقام کی کئی ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں گراؤنڈ بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے جلسے کی ویڈیوز شئیر کرتے ہوئے لکھابزدار صاحب یہ بھی اسی جلسہ کی ویڈیو ہے لیکن یہاں کسی نے سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال نہیں کیا۔ اس وقت عملہ شاید آرام کر رہا تھا۔
تحریکِ انصاف کے بیشتر رہنماؤں اور آفیشل اکاؤنٹ سے بار بار یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا کہ سوشل میڈیا پر پی ڈی ایم رہنما، صحافی اور دیگر صارفین بھرے ہوئے جلسہ گاہ کی جو تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں وہ دراصل اسی مقام پر پی ٹی آئی کے پرانے جلسوں کی ہیں۔
کئی پی ٹی آئی رہنماؤں نے تو پی ڈی ایم سے اپنے جلسوں کی تصاویر شئیر کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ تک لکھ دیا کہ بہتر ہو گا جلسے نہ کریں ہم آپ کو مختلف شہروں میں کیے گئے اپنے سینکڑوں جلسوں کی تصاویر دیتے ہیں وہی لگا کر کہیں آپ کے جلسے ہیں۔ کورونا بھی نہیں پھیلے گا اور آپ کا دل بھی بہلتا رہے گا۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر گردش کرتی نظر آئیں جن میں مینار پاکستان کا گراؤنڈ شائقین نے بھرا نظر آتا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر کل رات سے یہ جلسہ زیرِ بحث ہے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ناکام رہا یا کامیاب؟ کئی صارفین کا ماننا ہے کہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ نے جلسے کی کوریج کہاں دیکھی۔