لبرلز بھی مسکان کے ساتھ ہیں ۔۔

پاکستان کو سوشلسٹ اور لبرل سوچ کی شدید ضرورت ہے۔ معاشی سوال پر شدید اختلاف کے با وصف، بہت سے ایسے سوال ہیں جن پر پاکستان کے اندر سوشلسٹ اور لبرل اتحادی کے طور پر کام کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔ ایسے مشترکہ پلیٹ فارمز میں سر فہرست ہیں انسانی حقوق، سیکولرزم اور جمہوریت۔

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ بعض لبرل خواتین و حضرات نے پاکستان میں انسانی حقوق، سیکولرزم اور جمہوریت کے لئے قابل فخر جدوجہد کی ہے۔

وائے افسوس کہ گاہے بگاہے بعض سوشل میڈیا پر متحرک شخصیات جو لبرل شناخت پر فخر کرتی ہیں، بے اصولی کی ہر حد پار کر جاتی ہیں۔ یہی صورت حال مسکان خان کے سوال پر بھی دکھائی دی۔

لبرلزم، مارکسزم کی طرح، روشن فکری کی پیداوار ہے۔ روشن فکری کا ایک اہم ترین اصول تھا یونیورسلزم (Universalism) یعنی عالمگیریت۔ جو حقوق ایک انسان کو حاصل ہیں، وہی باقیوں کو بھی حاصل ہیں۔ رنگ، نسل، مذہب، جنس، علاقہ، زبان…کسی بھی بنیاد پر کسی کو تفریق کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

یہی عالمگیریت اور برابری انسانی حقوق کی تعریف، معیار اور ممکنہ ضمانت ہیں۔ انسانی حقوق کا مطلب ہی یہ ہے کہ بطور انسان ہمیں کچھ عالمگیر حقوق حاصل ہیں۔ ان حقوق کی نفی یا امتیازی سلوک کا مطلب ہے کہ انسانی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

لبرلزم پر مارکسزم کا یہ اعتراض تھا اور ہے کہ بغیر مساوی معاشی حقوق کے، برابری اور عالمگیریت ممکن نہیں۔ خیر!

کون سے انسانی حقوق ہیں جن پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا؟ سب سے پہلے تو جان کا تحفظ۔ اس کے علاوہ انسان کیا سوچتا ہے، اس سوچ کو دوسروں کو زک پہنچائے بغیر دوسروں کو تبلیغ کرنے کا حق، تنظیم بنانے کا حق، ’میرا جسم میری مرضی‘ کا حق، پرائیویسی کا حق۔

طالبہ مسکان ۔۔ فوٹو کریڈٹ:این ڈی ٹی وی

ان حقوق کی ضمانت ریاست کو بھی دینی ہو گی اور سماج کو بھی۔ جو ریاست جس قدر ان حقوق کی ضمانت دیتی ہے، وہ اتنا ہی روشن فکر (Enlightened) ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو ریاست جتنی روشن فکر ہے، اتنی ہی ترقی یافتہ ہے کیونکہ ایک سکالر کے مطابق ترقی نام ہی روشن فکری کو عملی جامہ پہنانے کا ہے (راقم اس خیال سے پوری طرح متفق ہے اور سمجھتا ہے کہ روشن فکری کو حقیقی عملی جامہ پہنانے کا راستہ مارکسزم ہے)۔

اسی طرح جو ریاست اور سماج مندرجہ بالا حقوق کی ضمانت نہیں دیتے وہ روشن فکر نہیں ہیں۔ اس بات پر لبرل بھی متفق ہوں گے اور مارکس وادی بھی۔ اگر اس عالمی اصول پر آئیں بائیں شائیں ہونے لگے تو سمجھ جائے کہ گڑ بڑ ہے۔ یہ آئیں بائیں شائیں لبرل بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات بعض مارکس وادی کہلانے والے بھی۔ اس لئے ضروری ہے کہ تنقید کرتے وقت اس اصول کو اساس بنا کر فیصلہ کیا جائے۔

اس طویل تمہید کے بعد کرناٹک کی طالبہ مسکان خان کے سوال پر بحث آسان ہو جائے گی۔

مسکان خان کے خلاف احتجاج کرنے والے ہندو طالبان کی مذمت کرنے کی بجائے بعض لبرل حضرات عالمگیریت کے اصول پرمندرجہ ذیل دو نقاط کی بنیاد پر آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں:

۱: مسکان خان کی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ مسکان خان کی حمایت کا مطلب ہے برقعے کی حمایت کرنا۔ اس نے نعرہ تکبیر لگایا۔ وہ خود بھی مذہبی جنونی ہے۔

ہمارا موقف: لباس ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ ریاست، خاندان، ادارے یا کسی فسطائی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے جسم پر لباس مسلط کرے۔ یہ حق نہ ہندوستان کی ریاست کے پاس ہے نہ فرانس کی ریاست کے پاس۔ نہ کمال اتاترک یا شاہ ایران کو حق ہے کہ حجاب پر پابندی لگائیں نہ طالبان اور سعودی و ایرانی آمریت کو حق حاصل ہے کہ زبردستی برقعے لاگو کریں۔ اگر آپ مسکان خان کے حق کی حمایت نہیں کر سکتے تو طالبان کی مخالفت کس منہ سے کریں گے؟ بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ طالبان غلط مگر ہندو طالبان ٹھیک؟

لبرلزم میں پِک اینڈ چُوز نہیں کیا جا سکتا۔ لبرلزم عالمگیریت کی قائل ہے۔ جب ہم اختلاف رائے کا اظہار رائے کا حق مانگتے ہیں تو یہ حقوق ان کو بھی حاصل ہوتے ہیں جو ہمیں اچھے نہیں لگتے۔

اسی طرح، بطور روشن فکر (یہاں مراد باغی ہیں اور لازمی نہیں سب لبرل باغی ہوں) ہم مظلوم اقلیت کے ساتھ ہیں، ظالم اکثریت کے ساتھ نہیں۔ ہم مظلوم اقلیت کا مذہب، رنگ، نسل نہیں دیکھتے۔ ہم اقلیت سے توقع نہیں رکھتے کہ وہ پہلے ہماری طرح روشن فکر بنے پھر ہم ان کی ’معزز اور پوتر‘ حمایت فراہم کریں گے۔

ذرا سوچئے! ہم پاکستان میں احمدیوں، مسیحیوں یا دیگر مذہبی اقلیتوں کی حمایت اس لئے بند کر دیں کہ ان کے اندر بے شمار ایسے عقیدے یا رسومات پائی جاتی ہیں جو ہمارے ’پوِتر لبرل معیار‘پر پورا نہیں اترتیں تو یقین کیجئے ٹی ایل پی کے مجاہدین اور لبرل حضرات میں کوئی فرق نہیں بچے گا۔ کیا کسی برقعہ پوش احمدی خاتون پر لاہور یا کراچی میں حملہ ہونے کی صورت میں لبرل حضرات محض اس لئے چپ رہیں گے کہ اس نے برقعہ پہن رکھا تھا؟ کیا کسی پاکستانی عیسائی نے صلیب پہن رکھی ہو گی تو اس پر پاکستانی طالبان کا حملہ جائز ہو گا؟

اصولی بات یہ ہے کہ مذہبی جنونیت پاکستان میں ہو یا ہندوستان اور افغانستان میں، اسرائیل میں ہو یا امریکہ میں…اسلامی ہو یا یہودی، بدھ مت ہو یا ہندو وادی، غلط ہے۔ یوں مسکان خان پر ہندو طالبان کے حملے میں ہندو طالبان کا ساتھ دینے والے لبرل بے اصول ہی نہیں، انتہا کے بے رحم بھی ثابت ہوئے ہیں۔

۲: مسکان خان کو ہجوم نے مشال خان کی طرح مار نہیں ڈالا۔ گویا ہندوستان پاکستان سے بہتر ہے۔ ہندو طالبان ہمارے والے طالبان سے بربریت میں ایک درجہ کم ہیں۔

ہمارا موقف: اسے لا علمی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت جو ہندو طالب ہندوستان کا وزیر اعظم ہے، اسے بچر آف گجرات کہا جاتا ہے۔ اسے ایک دفعہ امریکہ کا ویزا اس لئے نہیں دیا گیا تھا کہ اس کے ہاتھ پر دو ہزار سے زائد بے گناہ مسلمانوں کا خون ہے۔ یہ درست ہے کہ کرناٹک کے کالج میں مسکان پر حملہ آور ہندو طالبان کے جتھے نے جسمانی تشدد کا رخ اختیار نہیں کیا لیکن کیا پہلے کتنی ہی بار مشال خان کی طرز پر ہلاک نہیں کیا گیا؟ ہمارا اپنے بے اصول لبرل دوستوں کو مشورہ ہے کہ اگر انہیں ہندوستان کی تعریف ہی کرنی ہے تو ہندوستان کے بائیں بازو اور سیکولر حلقوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ بی جے پی کا ساتھ دینا بے اصولی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ تضادات کا شکار ہو کر اپنا مذاق ہی اڑوائیں گے اور پاکستانی بنیاد پرستوں کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔

اختتامیہ: خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت سے لبرل حضرات نے کھل کر مسکان کا ساتھ دیا۔ یہی اصولی لبرل موقف ہے۔ ایسے لبرل ساتھیوں کے ساتھ مل کر مذہبی جنونیت کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے۔