دجالی سمارٹ فون۔۔

فاطمہ عمران افسانہ نویس ہیں۔تفریحی،طنزیہ اور سوشل موضوعات پرلکھتی ہیں ۔ان کے افسانے مختلف اخبارات اور جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں

جب سے سمارٹ فون ہماری والدہ کے ہاتھ میں آیا ہے ہماری زندگی بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کی طرح عذاب بن کر رہ گئی ہے۔

انکو کئی بار سکھانے کے باوجود یہ عالم ہے کہ “ٹچکوں ٹچکوں” والا موبائل انکو آج بھی بھلا معلوم ہوتا ہے۔
اوپر سےوہی موبائل جو زمانے بھر کا دجالی آلہ تھا اب انکے ہاتھ لگنے کی دیر ہے کہ دھڑا دھڑ اسلامی پوسٹس شیر ہو رہی ہیں ۔

خاص طور پر والدہ کے حقوق اور اولاد کی نافرمانی سے متعلق فیس بک بھر میں جتنی بھی پوسٹس ہیں اب انکا گھر ہمارا انبکس ہے۔

فیس بک پر لاگ ان ہونے کی دیر ہے کہ پہلا میسج والدہ کا ہی موصول ہوتا ہے جس میں عموما ہمیں لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کئی بار ہمیں کہہ چکی ہیں کہ ڈی پی لگانی اتنی ضروری ہے تو سر پر دوپٹہ لے کر لگانی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اوپر سے ہماری ہر ڈی پی پر ماشاءاللہ ،واہ اور خوبصورت جیسے کمنٹ کرنے والے مداحوں کو ہماری طرح ہی عقل سے عاری سمجھتی ہیں۔
فیس بک دانشوروں سے متاثر اور “متاثرہ” ہونے میں اول نمبر ہماری والدہ کا ہی ہے۔ انکی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح انکی اولاد بھی فیس بک پر ایسی عقلمندی بھری باتیں کرے اور انکا نام روشن کرے۔

سب چیزوں سے بندہ بچ بچا لے تب بھی ان کے عجیب ٹوٹکے مجھ غریب کی ناک میں دم کیے رکھتے ہیں ۔

بات شروع ہوتی ہے کہ پڑوسیوں کی بیٹی کس قدر سگھڑ ہے اور ختم ہوتی ہے کہ اگر ہم بھی اسکی طرح سگھڑ ہوتے تو صبح سویرے اٹھ کر کلونجی کے تیل میں اجوائن ملا کر روزانہ دو چمچ نہار منہ پھانک لیتے۔ اور یوں دنیا کے سب سے کامیاب لوگوں کی فہرست میں ہمارا بھی نام ہوتا۔
فیس بک کے ساتھ ساتھ یوٹیوب پر بھی عبقری، کھانے پینے اور اسلامی وظائف کے چینلز پر سب سے زیادہ سبسکرائبر ہماری والدہ نما سادہ لوح خواتین ہی ہیں۔

ساری ویڈیوز نہ صرف پوری دیکھتی ہیں بلکہ فیملی گروپ میں شئیر کرنا اور سب کو اس پر عمل درآمد کروانا بھی اپنا فرض اولین سمجھتی ہیں۔
وٹس ایپ پر روز صبح کا سلام اور رات کو سونے سے پہلے کے وظائف کی لسٹ شیئر کرنا بھی اپنی والدہ ماجدہ کی ڈیوٹی ہے۔

“جوانی پھر نہیں آنی” سے زیادہ “موت تو برحق ہے” پر یقین رکھتی ہیں۔ پہلے کمرے میں جھانک کر ہماری کرتوتوں پر نظر رکھتی تھیں اب آنلائن ہو کر ہماری مصروفیات جان لیتی ہیں۔
اسی لیے اب تو ہماری بھی دعا ہے “اگ لگے اس موبائل نوں”….