یُوسف حُسین، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ۔ کائنات میں موجود گیس کا ایک بہت بڑا بادل جب گریوٹی کی وجہ سے سُکڑ کر مرکزی حصے میں ہائیڈروجن فیوژن کے عمل کا آغاز کرتا ہے تو ایک ستارے کا جنم ہوتا ہے۔ وہ ستارہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ چمکنا دمکنا شروع کر دیتا ہے۔ اب اس ستارے کا مستقبل کیا ہوگا، اس بات کا فیصلہ ستارے کا میس کرے گا۔
وائیٹ ڈراف کا تعلق ان ستاروں سے ہے جن کا میس سورج کے میس کے آدھے حصے سے لے کرکچھ 10 سولر میسز کے برابر ہوتا ہے۔ستارے کے مرکزی حصے میں ہونے والے فیوژن کے عمل سے پیدا ہونے والی حرارت ستارے کو پھیلانے کی کوشش کرتی ہے، اور گریوٹی اسے سُکڑنے کی۔ جب ستارے کے مرکز میں فیوژن کا عمل ختم ہوتا ہے توگریوٹی ستارےکے مرکزی حصے، کور (core)، کو سُکڑتی ہے لیکن ستارے کا باہر والا حصہ پھیل جاتا ہے۔ باہر والے حصے کی گیس مرکزی حصے کے گرد دور دور تک پھیل جاتی ہے اور اس گیس کے بادل کو پلینیٹری نیبیولا (Planetary Nebula) کہا جاتا ہے۔باقی بچی ہوئی کور میں چونکہ فیول ختم ہو جاتا ہے اس لیے وہ سکڑتی جاتی ہے. اس میں موجود سارے الیکٹرانز ایک دوسرے سے جتنا قریب ترین آ سکتے ہیں آجاتے ہیں۔
اس حالت میں ابتدائی ستارے کی کور وائیٹ ڈراف کہلاتی ہے۔ الیکٹرانز کا ڈیجینریسی پریشر کور کو مزید سکڑنے نہیں دے گا۔وائیٹ ڈراف میں کتنا مٹیریل کتنی جگہ میں سمایا ہوتا ہے اس کا رف ایسٹیمیٹ کچھ اس طرح سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورج کی جسامت میں موجود سارے مٹیریل کو اگر زمین جتنی جسامت میں سما دیا جائے تو وہ وائیٹ ڈراف ہوگا۔ سورج کا والیم زمین سے لگ بھگ 13 لاکھ گنا زیادہ ہے۔وائیٹ ڈراف کی ڈینسٹی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک لیٹر والیم میں ان کا کچھ دس لاکھ کلوگرام مٹیریل سما سکتا ہے۔ہمارا سورج بھی لگ بھگ 6 بلین سال بعد وائیٹ ڈراف بن چکا ہو گا۔ اور کئی ٹریلین سالوں بعد آخر کار بلیک ڈراف بن جائے گا۔