طوبیٰ عامر ، دی سپر لیڈ ، واشنگٹن ڈی سی ۔ ضمیراخترجیسےبھی تھےفرقہ واریت کے خلاف تھے ۔ یہی ان کی زندگی کے چند نمایاں پہلوؤں میں سے ایک تھاجو مرتے دم تک ان کی شخصیت میں سمویا رہا۔
معروف عالم دین علامہ ضمیر اختر نقوی 76 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے ۔ان کی نماز جنازہ انچولی میں ادا کی گئی جس کے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ضمیر اختر پر جتنی تنقید کی گئی شاید ہی کسی شیعہ عالم پر کی گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر جتنا طنز لگایا گیا شاید ہی کسی شیعہ عالم کے حصے میں آیا ہو۔۔ مگر یہ ان کی شخصیت کا شاندار پہلو تھا کہ انہوں نے کبھی پلٹ کر وار نہیں کیا۔
فرقہ واریت نہ خود پھیلائی ۔۔ نہ کبھی اس کی تلقین کی ۔ اگر یوں کہا جائے کہ حکمت اور میانہ روی کی عمدہ مثال تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ معروف عالم دین و شعلہ بیان مقرراپنے جارحانہ اور پر اثر خطابات سے مجالس میں جان ڈال دیتے تھے ۔
علامہ ضمیر اختر نقوی 24 مارچ 1944 کو بھارتی شہرلکھنو میں پیدا ہوئے ۔ وہ خطیب کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ انہوں نے چالیس سال تک مجالس میں خطاب کیا ۔ ان کے سننے والے لاکھوں میں ہیں۔ مرثیہ نگاری علامہ ضمیر اخترنقوی کا خاصا تھی ۔
علامہ ضمیر نقوی نے 40سے زیادہ کتب لکھیں
انہوں برصغیر پاک و ہند ، خطہ عرب اور فارس میں مرثیہ نگاری کے رجحان کو فروغ دینے کے لئے بہت کام کیا ۔ ان کی کئی کتب ان علاقوں میں مقبول ہیں ۔ انہوں نے مرزا انیس، مرزا دبیر ، جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات بھی لکھیں ۔ ان کی شاعری سحر انگیز ہے ۔
علامہ کی معروف کتابوں میں سے ایک معراج خطابت5 جلدوں میں شائع ہوئی ۔ نوادرات مرثیہ نگاری اورسوانح حیات شہزادہ قاسم ابنِ حسن دو جلدوں پرمشتمل ہے ۔
یہ بھی پڑھیئے :بلوچ ترقی پسند شاہینہ شاہین ابدی نیند سلا دی گئیں
ان کی مجموعی طور پر چالیس سے زائد تصانیف مارکیٹ میں موجود ہیں۔ گورنر، وزیراعلیٰ سندھ سمیت ملک کی سماجی ، مذہبی اور سیاسی شخصیات نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔
سماجی حلقے یہ کہنے میں انصاف پسند واقع ہوئےہیں ۔۔ کہ سچ ہے کہ ضمیر اختر جیسے بھی تھے فرقہ واریت کے خلاف تھے ۔ یقینی طور پر علم کا سمندرتھے ۔ یوں ہمیشہ کے لئے نام پیدا کر گئے ۔
One Comment