یہ ایک ایسی رنجش تھی جو نظر تو نہیں آتی تھی لیکن اس رنجش کے باعث کئی معزز جج صاحبان کی آپس میں بول چال بند تھی۔ اب اس رنجش کو ہماری تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور یہ تاریخ کسی عام صحافی یا مصنف نے نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ارشاد حسن خان نے لکھی ہے۔
سابق چیف جسٹس اپنی آپ بیتی ’’ارشاد نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اس زمانے میں جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور سپریم کورٹ کے سنیئر جج صاحبان ان سے تعاون نہیں کرتے تھے۔
ان کا گلہ تھا کہ سپریم کورٹ میں سعد سعود جان صاحب سینئر موسٹ تھے، ان کے بعد اجمل میاں تھے، ان کے بعد سعید الزمان صدیقی تھے۔ قاعدے کی رُو سے جان صاحب کو چیف جسٹس ہونا چاہئے تھا، ان کے بعد اجمل میاں کو اور علیٰ ہذا لقیاس سجاد علی شاہ صاحب کو جونیئر ہونے کے ناتے چیف جسٹس نہیں بنانا چاہئے تھا۔ سنیارٹی کے اصولوں کو مدِنظر رکھا جانا چاہئے تھا۔
رنجش یہاں تک تھی کہ سینئر ججز چیف جسٹس سے بات چیت بھی نہیں کرتے تھے۔ سلام دعا تک کی نوبت نہیں آتی تھی۔ گیارہ بجے میٹنگ میں شریک ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے تھے‘‘۔
ارشاد حسن خان صاحب سپریم کورٹ کے اس بنچ کے سربراہ تھے جس نے سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آئین کی معطلی کے اقدام کو ناصرف جائز قرار دیا بلکہ مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔
’’ارشاد نامہ‘‘ میں سابق چیف جسٹس نے ظفر علی شاہ کیس میں اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے لیکن کچھ ایسی باتیں بھی لکھ ڈالی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ناصرف ڈکٹیٹر صاحبان بلکہ منتخب وزرائے اعظم بھی عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی تو اٹارنی جنرل کے ذریعہ جج صاحبان کو ہلکی پھلکی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔
ارشاد حسن خان لکھتے ہیں کہ ایک دن میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے پاس اُن کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُنہیں وزیراعظم بےنظیر بھٹو کا فون آیا۔ وزیراعظم صاحبہ نے انہیں پرائم منسٹر ہائوس بلایا تھا۔
شاہ صاحب نے اپنے ساتھی جج سے کہا کہ آپ یہیں بیٹھیں، میں وزیراعظم سے مل کر آتا ہوں۔ ایک گھنٹے بعد شاہ صاحب واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم صاحبہ آپ کو سپریم کورٹ کا مستقل جج بنانا چاہتی ہیں لیکن سجاد علی شاہ کا خیال تھا کہ ابھی ارشاد حسن خان کو ایڈہاک جج کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ ارشاد حسن خان نے اپنے چیف جسٹس کو ناخوش دیکھا تو دو مہینے کی چھٹی مانگ لی۔
چیف جسٹس نے بھی دو مہینے کی چھٹی منظور کر لی۔ ارشاد حسن خان نے دو ماہ اپنے بیٹے کے پاس بیرونِ ملک گزارنے کا پروگرام بنا لیا۔ بیرون ملک روانگی سے ایک رات قبل اُنہیں وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کا فون آیا کہ وزیراعظم صاحبہ کل آپ کو ملنا چاہتی ہیں۔ ارشاد صاحب نے اُسے بتایا کہ میں تو سپریم کورٹ سے چھٹی پر ہوں، میں کل بیرون ملک جا رہا ہوں۔ ملٹری سیکرٹری نے فون بند کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد اٹارنی جنرل قاضی جمیل کا فون آ گیا اور وزیراعظم سے ملاقات پر اصرار کیا جب ارشاد حسن خان نے بتایا کہ میں تو بیرون ملک جا رہا ہوں تو قاضی جمیل نے مذاقاً کہا کہ آپ اپنی روانگی دو چار دن کے لئے ملتوی کر دیں، اگر آپ ملتوی نہیں کرتے تو میں ایف آئی اے کو بھجواتا ہوں، وہ آپ کو لے آئیں گے۔ پھر ارشاد حسن خان مان گئے۔
انہوں نے بیرون ملک روانگی ملتوی کی اور وزیراعظم صاحبہ سے ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات کے دوران طے پایا کہ ارشاد حسن خان لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بن کر عدلیہ کا وقار بحال کریں گے۔ جب سجاد علی شاہ کو پتہ چلا کہ وزیراعظم نے اُن سے پوچھے بغیر ارشاد حسن خان کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا ہے تو اُنہوں نے کہا کہ تم استعفیٰ دے دو لیکن ارشاد حسن خان نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔
’’ارشاد نامہ‘‘ میں اور بھی ایسی باتیں شامل ہیں جنہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ رنجشیں اور سازشیں ماضی کی نہیں بلکہ حال کی کچھ کہانیوں کا حصہ ہیں۔ فی الحال ہم ماضی میں ہی رہتے ہیں۔
آج کل کی کہانیاں مستقبل کے کسی ’’ارشاد نامہ‘‘ میں پڑھ لیں گے لیکن ارشاد حسن خان صاحب نے اپنی کتاب میں چوہدری اعتزاز احسن کے ایک تبصرے کو شامل کر کے ’’ارشاد نامہ‘‘ کو کافی معتبر بنا دیا ہے۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں جس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ نے کبھی آئینِ پاکستان کی اس قدر حفاظت نہیں کی جس قدر وقت تقاضا کرتا تھا۔
چوہدری صاحب نے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے افتخار احمد کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سے یہ اقتباس بھی اپنی تحریر میں شامل کیا ہے کہ ’’نوکری کا مسئلہ آتا ہے تو تمام جج صاحبان اتنے بہادر نہیں ہوتے کہ اپنی نوکریوں کو قربان کر دیں اور انصاف کرتے رہیں، میں آپ کو سچی بات بتا رہا ہوں لہٰذا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اپنی نوکری کو بچا لینا چاہئے کیونکہ میرا یہاں رہنا قوم کے لئے اور ادارے کے لئے بہتر رہے گا‘‘۔
’’ارشاد نامہ‘‘ کا پیش لفظ موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے لکھا ہے اور انہوں نے ظفر علی شاہ کیس کے بارے میں کہا ہے ’’یقیناً یہ فیصلہ اُس وقت کے لحاظ سے جرأت مندانہ فیصلہ تھا‘‘۔ موجودہ چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس کو ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے پر جرأت مندی کا سرٹیفکیٹ دیا ہے جس پر ارشاد حسن خان بہت خوش ہوں گے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ کے آخر میں ججوں کے ضابطہ اخلاق کا بھی ذکر ہے۔
کتاب کے صفحہ 287پر کہا گیا ہے کہ ’’جج کسی ایسی طاقت یا قوت کی مدد نہ کرے جو آئینِ پاکستان میں بتائے گئے طریقے کے علاوہ کسی اور طرح سے قوت حاصل کرے‘‘۔ آخر میں دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمارے ججوں کو صرف ریٹائرمنٹ کے بعد حق گوئی کی جرأت نہ دے بلکہ دورانِ سروس بھی اُنہیں ایسے فیصلے کرنے کی ہمت عطا کرے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہیں اپنے فیصلوں کی صفائی میں خود کتابیں نہ لکھنی پڑیں بلکہ اُن کے فیصلوں کو خلقِ خدا کی طرف سے سراہا جائے۔