شعیب ترک ، سپر لیڈ نیوز، ہیوسٹن ۔ آج کل ایک خبر زیر گردش ہے کہ ترکی کا سو سالہ معاہدہ لوزان اور اس پر سے پابندی ختم ہو رہی ہے ۔ یہ خبر مکمل طور پر من گھڑت اور جھوٹ ہے ایسا سو سالہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ ترکی پہلے سے ہی نیٹو اور یورپ کا حصہ ہے۔ طیب اردوان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان ہمیشہ سے پاکستان میں مقبول رہے ہیں، لیکن 2015 میں عسکری بغاوت کے خلاف کامیابی سے نبرد آزما ہونے کے بعد ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور بالخصوص ملک کی سنی آبادی انہیں اپنا ہیرو سمجھتی ہے اور بہت سوں کو اردوان کی شخصیت میں ایک نجات دھندہ نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سی وڈیوز، میم، اور مضامین موجود ہیں جو ان توقعات کو ایک نئی سطح تک لے جا رہے ہیں۔ انہی توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک معروف پرائیویٹ ٹی وی چینل کے معروف اینکر نے یوٹیوب پہ دو ویڈیو شیئر کیں، جو بہت مقبول ہوئیں اور انہیں کئی ملین ویوز ملے، وڈیو میں انہوں نے مندرجہ ذیل دعوے کیے ہیں۔
2023 میں سابقہ خلافت عثمانیہ اور مغربی طاقتوں کے مابین ہونے والا معاہدہ لوزان ختم ہونے جا رہا ہے، اور ترکی بہت سی آزادیاں اور اختیارات واپس حاصل کر لے گا۔
معاہدہ لوزان کے مطابق ترکی اپنی سرزمین سے معدنیات اور خاص کر پیٹرولیم نہیں نکال سکتا، معاہدہ ختم ہونے کے بعد ترکی پیٹرول اور معدنیات نکالنا شروع کرے گا اور ایک عالمی طاقت کا درجہ حاصل کر لے گا۔
2023 میں ترکی سعودی عرب میں حجاز کے علاقے پہ اپنا دعویٰ کرے گا اور شاید سعودی عرب پہ دوبارہ ترکی کی حکومت ہوگی۔
بعض وڈیوز اور مضامین میں یہ یوٹوپیائی دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2023 میں طیب اردوغان صاحب خلافت عثمانیہ کی بحالی کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔
ان امیدوں، دعوؤں اور توقعات کی حقیقت کیا ہے؟
بیسویں صدی کی تاریخ اور ترکی کی سیاست کا علم رکھنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان افسانوں پہ یقین کیے بیٹھی ہے، اور یہ جھوٹ سوشل میڈیا پر لگاتار شیئر کیے جا رہے ہیں۔ تو حقائق کیا ہیں؟ حقائق تک پہنچنے کے لئے ہمیں پہلی جنگ عظیم کے دوران اور فوراً بعد کی تاریخ، ڈپلومیسی اور معاہدات پہ نظر ڈالنی ہوگی اور اس کے بعد ترکی کے مقبول اور طاقتور صدر اردوغان کے وژن 2023 پہ ایک نظر ڈالنے سے اصل صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔
تین بنیادی حقائق
سلطنت عثمانیہ اور مغربی اتحادی طاقتوں میں مابین ہونے والا معاہدہ، معاہدہ سیورے کہلاتا ہے، جبکہ معاہدہ لوزان اتاترک کے جمہوریہ ترکی اور مغربی طاقتوں کے مابین ہوا۔ یعنی معاہدہ لوزان کا سرے سے سلطنت عثمانیہ سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔
معاہدہ لوزان کی میعاد سو سال ہر گز نہیں، یہ ایک غیر میعادی عمومی معاہدہ ہے۔ معاہدے کا مکمل متن انٹرنیٹ پہ ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
ترکی پہ معدنیات نکالنے کی کوئی پابندی نہیں، اور یہ ملک اپنی پٹرولیم کی ضروریات کا دس فیصد اپنے ملک سے حاصل کرتا ہے۔
اب ہم ان دو معاہدات کے ایک اجمالی خاکے پہ نظر ڈالتے ہیں، اس موازنے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اتاترک نے جس معاہدہ پہ دستخط کیے وہ ایک متوازن حیثیت سے اور فاتحانہ انداز میں کیا گیا معاہدہ تھا، سلطنت عثمانیہ کی طرف سے دستخط کیا گیا معاہدہ سیورے درحقیقت ایک فوجی اور سیاسی شکست کی دستاویز تھی، جسے اتا ترک نے میدان کار زار میں یونان، فرانس، برطانیہ، روس اور اطالیہ کی افواج کو شکست دینے کہ بعد مسترد کر دیا، اور ایک نیا متوازن معاہدہ، معاہدہ لوزان وجود میں آیا۔
معاہدہ سیورے ( 10 اگست 1920 ) کے اہم نکات
معاہدے میں سلطنت عثمانیہ کی سرحدات کا تعین کیا گیا، جس میں سلطنت عثمانیہ کا رقبہ موجودہ ترکی کے رقبے سے کم تھا۔ متعدد جزائر جیسے جزیرہ امبروز وغیرہ یونان کی حوالے کر دیے گئے، ترکی عسکری طور پہ اٹلی، فرانس اور برطانیہ کے زیر قبضہ آ گیا۔ سلطنت عثمانیہ کی سابقہ ولایت، عراق اور مصر برطانیہ کے قبضے میں، شام، تیونس اور الجزائر فرانس کے قبضے میں اور لیبیا اٹلی کے قبضے میں چلے گئے۔ سعودی عرب شریف مکہ کے زیر تسلط سلطنت حجاز قرار پائی۔
آبنائے باسفورس کے لئے ایک طاقتور کمیشن قائم کیا گیا، جس میں تمام اختیارات مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں دے دیے گئے، اس کمیشن کو ایک پولیس فورس بنانے کا اختیار دیا گیا جس کے افسر مغربی ملکوں سے لئے جانے قرار پائے۔ اسی کمیشن نے آبنائے باسفورس کا برائے نام محصول وصول کرنا تھا۔
ترکی کے تمام مالی وسائل، تین مغربی ملکوں برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے قبضے میں ہوں گے، ترکی کا بجٹ انہیں طاقتوں کی طرف سے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کی منظوری سے عمل میں آئے گا، تمام ٹیکسز کا نفاذ بھی اسی سامراجی مالیاتی کمیشن کی منظوری سے ہوگا۔
عثمانی سلطان 700 سے زیادہ محافظ نہیں رکھ سکتے، ملک کی مجموعی عسکری طاقت کی تعداد 50 ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی، ان اہلکاروں کو صرف بندوقیں اور بعض کو مشین گنیں دی جائیں گی، اس کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں رکھا جا سکتا۔ ان کی بنیادی ذمہ داریاں ملک کے اندرونی معاملات کی دیکھ بھال اور داخلی امن و امان کا قیام ہوگا۔
ترکی کی بحریہ کو صرف 6 تارپیڈو کشتیاں اور 7 سلوپ ( فریگیٹ سے بھی چھوٹی بادبانی کشتی sloop) رکھنے کی اجازت ہوگی۔ عثمانی سلطنت کو جنگی بحری یا فضائی جہاز بنانے یا خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جو بحری یا ہوائی جہاز ترکی کے پاس قابل استعمال یا قابل مرمت یا زیر تعمیر حالت میں موجود ہیں، تمام کے تمام 6 ماہ کے اندر اندر اتحادیوں کی بندرگاہوں پر اپنے خرچے پہ پہنچانے ہوں گے۔ تمام اسلحہ بارود بھی اتحادیوں کے حوالے کرنا ہوگا، ترکی کوئی فضائیہ رکھنے کا مجاز نہیں ہوگا۔
ترک باشندے کسی دوسرے ملک کی فوج میں بھی نہ ملازمت کرسکیں گے نا ہی تربیت حاصل کر سکیں گے۔ جرمنی سے حاصل کیے گئے جہاز، ہتھیار اور اسلحہ اپنے خرچ پر اتحادیوں کی بندرگاہوں تک پہنچانا ہوگا۔
اب ہم معاہدہ لوزان کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ معاہدہ ترکی کی کامیاب جنگ آزادی اور خلافت کے خاتمے کے بعد اگست 2023 کو نافذ العمل ہوا۔
معاہدہ لوزان ( 24 اگست 1923 ) کے اہم نکات
یہ معاہدہ معاہدہ سیورے کے مقابلے میں مختصر تھا، اس میں صرف 143 دفعات شامل ہیں جب کہ موخر الذکر (معاہدہ سیورے ) میں 443 دفعات شامل تھیں۔ معاہدہ لوزان میں کوئی عسکری دفعات شامل نہیں ہیں، معاہدے کے اقتصادی سیکشن میں تمام دفعات ایک دوسرے کے شہریوں کے انفرادی مفادات، جائیدادوں اور حقوق کے متعلق ہیں، معاہدے کی کوئی دفعات ترکی کی اندرونی تجارت، معدنی وسائل اور بین الاقوامی تجارتی تعلقات کے متعلق نہیں ہیں۔
معاہدہ لوزان میں ترکی کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کر لیا گیا۔ اسی طرح ترکی نے سابقہ سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونے والے ممالک کی آزادی تسلیم کرلی۔
ترک آبنائے ( آبنائے باسفورس اور ڈارڈنیلز ) کو تمام ملکوں کے تجارتی اور فوجی جہازوں کے لئے آزاد قرار دے دیا گیا، مگر یہ شق 1936 میں Montreux convention کے بعد ختم ہو گئی، اس کنوینشن میں ترک آبنائے مکمل طور پر ترکی کے عسکری اختیار میں آ چکی ہیں۔
اتحادیوں کے جانبحق فوجیوں کی قبروں اور یادگاروں کے لئے ترکی نے جگہ مہیا کی، اسی طرح اتحادی ملکوں میں اپنے لیے یہی حق حاصل کیا۔
اسی طرح باقی دفعات کا تعلق ایک دوسرے کی جغرافیائی سالمیت کے احترام، کمپنیوں کے تجارتی حقوق، سلطنت عثمانیہ کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور نئے آزاد ہونے والے ممالک کا اس ادائیگی میں حصے، جرمنی، روس اور آسٹریا کے ساتھ برابری پہ مبنی تعلقات پہ ہے۔ اس مختصر موازنے سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے معاہدہ لوزان کا خلافت عثمانیہ سے کوئی تعلق نہیں، اور جو خواب بیچے جا رہے ہیں ان کی کوئی تعبیر نہیں۔
ترکی کا وژن 2023
اس وژن کے مطابق 2023 تک ترکی یہ اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔
دنیا کی دس سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہونا
فی کس سالانہ آمدنی 25000 ہزار ڈالر تک لے کر جانا
مجموعی قومی پیداوار 2.6 ٹریلین ڈالر تک لے کہ جانا
سیاحت میں دنیا کے اولین پانچ ملکوں میں شامل ہونا یہ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ ان حقائق کے سامنے رکھنے سے ایک بے مقصد اور بے کار رومانس یا ناسٹلجیا کی آبیاری کرنے والی افواہوں کے زور میں کسی حد تک کمی آئے گی۔