عوام کو اب اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ ریاست تو کسی بھی غلط یا درست کام کی اجازت ہی نہیں دیتی تو اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ حکومت سے اجازت ہی نہ مانگو۔۔ حکومتی سربراہان، عسکری بڑے ، معزز ججز، قابل احترام علما کرام ۔۔ الغرض ہر اتھارٹی والا یہی کہتا ہے کہ قتل و غارت کی اجازت تو بالکل نہیں دیں گے ۔ لاقانونیت کی اجازت نہیں دیں گے ۔۔۔ اور اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لیا تو اس کی تو سو فیصد ممانعت ہے ۔ دہشت گردی، جلاؤ گھیراؤ بھی حکومت کی نظر میں قابل نفرت اقدامات ہیں یہی وجہ ہے کہ ریاست نے ان کاموں کی بھی اجازت دینا مکمل بند کر رکھی ہے ۔
خان صاحب نے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے بعد ان کی اہم ہڈی کے علاج کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مذاکرات کی البتہ اجازت ضرور دے رکھی ہے تاہم ابھی بھی بہت سے ایسے امور ہیں جن کی اجازت دینا نا ممکن ہے ۔
اب وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب کےدو ٹوک کلمات سن لیں ۔۔ آپ نے سیالکوٹ واقعے کے فوری بعد بیان جاری کیا کہ ہم ایسے پر تشدد واقعات کی اجازت نہیں دیں گے ۔بلاشبہ یہ بہت انصاف پسند رویہ تھا۔۔ وزیراعظم عمران خان نے سری لنکن منیجر کے قتل پر سخت افسوس کا اظہار کیااور اعتراف کیا کہ ایسے واقعات سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے ۔ یہ سفاکانہ واردات ہے ساتھ ہی کپتان نے اپنے عزم کو دہرایا کہ ہم ایسے واقعات کی اجازت نہیں دیں گے ۔
آرمی چیف نے بھی افسوس کا اظہار کیا اورگویا واضح کیا کہ اجازت کے بغیر ایسی گھناؤنی واردات کرنے والو ں کی گرفتاری کے لئے سول انتظامیہ کی معاونت کریں گے ۔
باجکو۔۔ نہیں ۔۔ شاید راجکو نامی سیالکوٹی فیکٹری کا نام ہی عوام کے راج کی وجہ سے پڑا تھا۔ اس فیکٹری کے ملازم جانتے تھے کہ وہ یہاں راج کریں گے ۔ یہ فیکٹری دراصل ان کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سری لنکن سربراہ بہرحال کافر ہے اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سے قابل نفرت ہے ۔ مزید غلطی یہ کر بیٹھا جو ایک سچے عاشق صادق مسلمان کوجھاڑ پلا بیٹھا۔
پریانتھا کمارا کا نام ہی اس سے نفرت کے لئے کافی تھا۔ نہ تو اس کا نام اسلامی تھا نہ کرتوت۔۔پس سپر وائزر نے جب فیکٹری کی صفائی ستھرائی میں کوتاہی پر ڈانٹ کھائی تو ہی اس نے یہ طے کرلیا تھا کہ اب بدلہ لے کر رہے گا ، اس غیر مسلم کو سبق ضرور سکھائے گا۔ ایک تو کافر اور اوپر سے ایک مسلمان پر رعب جھاڑ رہا ہے ۔۔ تو اس نے یہ بھی سوچ لیا کہ اگر پولیس سے تشدد کی اجازت مانگے گا تو آئی جی پنجاب صاحب بالکل اجازت نہیں دیں گے ۔ اگر معاملہ عدالت میں گیا تو جج صاحب بھلا کہاں اجازت دیتے ہیں ایسے کاموں کی ۔۔ اس سے اوپر کی اتھارٹی تو کبھی اجازت نہیں دیتی ۔۔ پس سادہ سا حل یہ ہے کہ اجازت لئے بغیر ہی واردات کردو۔۔ توہین مذہب کا الزام لگاؤ۔۔ شور مچاؤ۔۔ لبیک کا نعرہ لگاؤ۔۔ یا نعرہ تکبیر۔۔ کچھ بھی کرو عوام تو ساتھ لازمی دے گی ۔ بس پھر کیا تھا۔۔ ایک نعرہ لگا۔۔ ہاتھ اٹھے ۔۔ ڈنڈے اٹھے ۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے سری لنکن منیجر کو اس کی ڈانٹ ڈپٹ کی پاداش میں جہنم واصل کردیا۔۔ کسی نے کہا۔۔ لاش جی ٹی روڈلے جاؤ۔۔ کوئی چیخا ۔۔ٹکڑے کر ڈالو بے غیرت کے ۔۔بعض نے تو بیوی اور پانچ سالہ بیٹے کو بھی بھون ڈالنے کا مشورہ دیا۔۔ سب جانتے تھے حکومت سے اجازت لی تو پھنس جائیں گے ۔۔ بغیر اجازت ہی مارو۔۔ بس پھر یہی ہوا۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے پریانتھا کمارا سوکھی ٹہنیوں کی طرح بکھر گیا۔۔لاش کو جلانے کے عمل کے دوران پولیس اس لئے خاموش سامنے ہی کھڑی تھی کیونکہ یہ عمل بغیر اجازت ہو رہا تھا۔۔
اب دنیا چیخ رہی ہے ۔۔ ارض پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے ۔۔کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسلام بدنام ہورہا ہے ۔ اس قتل کے کچھ حمایتی ہیں۔۔ کچھ مخالف ۔۔ بعض ایسے بھی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہے ۔ کئی ایسے بھی پائے گئے جو کہتے ہیں نہیں نہیں ۔۔ لنکن منیجر نے سچ میں توہین کی تھی ۔۔گستاخ کی سزا موت۔۔ ایک بڑا طبقہ اٹھا۔۔ اور سمجھانے لگا۔۔ کہ دیکھو بھارت کیسے اس واقعے کو لے کر پراپیگنڈا کر رہا ہے ۔۔ مان لو عالمی سازش ہی ہے یہ ۔۔
الغرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔۔ لیکن آپ دیکھ لیں ۔۔ تمام حالات میں ریاست کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ۔۔ تمام بڑے اب بھی ایک پیج پر ہیں کہ وہ کسی صورت ایسے کامو ں کی اجازت نہیں دیں گے ۔۔