عرب دنیاکی خوش فہمی

عرب دنیاکی خوش فہمی .. تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک سائنسی میدان میں تحقیق یا قابلیت کے لئے تو نہیں جانے جاتے ۔۔مگر یہ بات طے ہے کہ یہ ممالک ایک دوسرے سے سبقت یا ایک قدم آگے جانے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کے عالمی سائنسدان ، محقق ،ریاضی دان اور استاد ہیں ۔ ایم آئی ٹی امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ آپ کے پارٹیکل فزکس پر مختلف تحقیقی مقالے عالمی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ سائنس،تعلیم ،انسانی حقوق اور سوشل ایشوز پر لکھتے ہیں ۔

متحدہ عرب امارات ان دنوں میلا لوٹنے کی تیاری میں ہے ۔ سرخ سیارے کےلئے اماراتی مشن کامیابی سے جولائی 2020 کو لانچ ہو چکا ہے ۔اس  کا مطلب یہ ہوا کہ چھے ماہ میں ہی مشن مریخ  سے ملاقات کر رہا ہوگا۔ متحدہ عرب امارات کے شہروں میں دنیا کی بلند ترین، شاندار  اور حیرت انگیز عمارتیں  موجود ہیں ۔دنیا کی اعلیٰ ترین ایئرلائنز  “ایمریٹس” اماراتی ہی ہے ۔ یہاں زندگی کےہر  رنگ نمایاں ہیں ۔ مصنوعی ذہانت کاگرو۔۔دنیا کا پہلا وزیر ۔۔ستائیس سالہ سلطان حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے “صد سالہ 2071 “منصوبے کا سربراہ مقررہوا ۔

متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہی سعودی عرب بھی بظاہر پیچھے نہیں رہنا چاہ رہا۔۔۔سعودیہ  نے بحیرہ احمر کی سرحد سے ملحق صحرا میں ایک عظیم الشان میگا سٹی ” نیوم “کی تعمیر کا آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے پر 500ارب ڈالر لاگت آئے گی ۔ اس شہر میں مصنوعی طریقے سے بارش برسائی جائے گی ۔ ایک مصنوعی چاند، روبوٹک ملازم ، اڑنے والی ٹیکسی سروس  اور ہالو گرام ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے اساتذہ شامل ہوں گے ۔

قطر 2022 فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرتے ہوئے 220 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے

ہیٹ پروف  سولر سپر کُول سٹیڈیم مکمل ہونے کے قریب ہیں جن میں سے ہر ایک میں پچاس ہزار  کے قریب تماشائی سما سکتے ہیں ۔ عرب دنیا کیا ہے ؟ان کی کہانی  دنیا بھر میں سنی جارہی ہے۔ گھریلو ملازموں سے لے کر ٹرک ڈرائیوروں تک ۔۔ مشہور معماروں سے لیکر خلانوردوں تک ۔۔ ہررشتہ اور تعلق تجارتی مقاصد کے لئے ہے ۔۔ تیل کی کمائی  سے اعلیٰ دماغ ، مضبوط اعصاب اور  ٹیکنالوجی  خریدی  جارہی ہے ۔

عرب ممالک کے کئی حکمران یہ بھانپ چکے ہیں کہ ایک دن تیل ختم ہو جائے گا ۔۔اور وہ بند گلی میں پھنس سکتے ہیں ۔ شاندار ماضی پر شادیانے بجانا  اور معمول کی مذہبی قسم کی تعلیم انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور بھاری سرمایہ خرچ کر رہے ہیں ۔ تمام ریاستی اداروں میں پرائمری کلاس سے یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے۔ نئی عرب یونیورسٹیوں میں متعدد امریکی جامعات کے عرب کیمپس موجود ہیں جن میں مشہور غیر ملکی پروفیسرز کو پر کشش  تنخواہوں پررکھا گیا ہے ۔  لیبارٹریز سائنسی آلات سے لیس ہیں ۔۔اور ہر طرح کا انفراسٹرکچراور سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ۔  

کیا یہ کام کر رہا ہے؟ کیا سیکھنے کا کلچر تشکیل پا چکا ہے ؟

سائنس کے جریدے “نیچر “نے ان امور کی تعریف کی ہے ۔ نیچر  مشرق وسطیٰ ایڈیشن کا ایک  مضمون  “سعودی عرب کا سائنسی پاور ہاؤس کے طور پر ظہور “کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب سائنس کی ترویج اور پرچار کے لحاظ سے اسرائیل کے بعد دوسرا بڑاملک بن گیا ہے ۔ اسی خطے کے دیگر ممالک نے  بھی درجہ بندی میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ۔ یہ اعداد و شمار یونیورسٹیوں سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں کی تعداد کا احاطہ کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ کے زمانےمیں چھوٹے ثبوتوں کی بنیاد پر بڑے دعوے کرنا غیر دانشمندانہ ہے۔ممکن ہے کہ جریدے کی “تعریفیں” سیاسی اثر رسوخ  اور پیسے کی گیم سے متاثر ہوں۔۔!لہٰذا “سائنس پاور ہاؤس” کا حیرت انگیز نتیجہ دیگر شواہد سے غیر سند یافتہ معلوم ہوتا ہے ۔

مثال کے طور پر  یونیسکو کی سائنس رپورٹ کہیں زیادہ محتاط رہی۔ اس میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بیشتر عرب ممالک میں  تعلیمی نظام ابھی بھی ایسے گریجویٹس نہیں نکال رہا  جو صحت مند معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے متحرک  ہوں۔ گلف ممالک کے کئی پروفیسر اس امر سے متفق ہیں ۔ وہ اپنے طلبا میں بے حسی ، آگے بڑھنے کے جذبے کے فقدان ، ناقص اخلاقیات اورکچھ سیکھنےکے لئے تجسس کی کمی کی شکایت کرتے ہیں ۔ پڑھنے کی عادات معدوم  بتاتے ہیں۔  زیادہ تر طلبا آسان شعبوں  جیسے مارکیٹنگ ، بینکاری  اورمینجمنٹ  کا انتخاب کرتے ہیں۔  جبکہ بعض کچھ زیادہ فکری طلب اور سخت مضامین کا مطالبہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے : ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کالم ۔ کیا ارطغرل سے جان چھوٹے گی ؟

اسلام کے سنہری دور (9 ویں سے 13 ویں صدی) کےخاتمے کے کئی سوسال بعد عرب ثقافت خود جذب ہوچکی ہے

اوراپنے منہ میاں مٹھو کے متراد ف ہو چکی ہے ۔ اس بات پر انحصار کیا گیا  ہے کہ یہ کلچر اور علاقہ  واحد حقیقی مذہب رکھتا ہے ۔۔ اور یہ کہ عربی سب سے کامل زبان ہے۔  یہ سچائی پر دائمی اجارہ داری کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ تہذیبی پیمانے پر نرگسیت ہے۔

نرگِس کی دیومالائی داستان کے بارے میں آپ جانتے ہی ہوں گے ۔  یہ ایک یونانی افسانوی شخصیت ہے جسے اپنے آپ سے ہی عشق ہو گیا تھا۔ وہ اپنے علاوہ سب کو حقیر جانتا تھا۔۔غصے میں دیوی نمیسزنے اسے سزادی تھی ۔اسے ندی کنارے اپنا عکس دیکھنا تھا۔ اپنے خوبصورت عکس کی دیوانگی میں  وہ خود ہی فناہو گیا اور یوں اسی حالت میں مجنوں ہو کر مر گیا ۔

ایسا ہی المیہ  خود سے محبت میں کھو جانے والی ثقافتوں کا بھی ہے۔ ایسے ممالک معیار کو حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔وقت کے جدید تقاضوں کے ساتھ خود کو ڈھال نہیں پاتے۔  نہ ہی کسی کے ساتھ گھل مل سکتے ہیں ۔ بہت سارے  عرب نوجوان اسی سست رفتار ڈگر پر چل نکلے ہیں ۔ وہ دانشورانہ سرگرمیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔۔ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ جدیددنیا ان کے مسلم آباؤاجداد کے بنیادی کاموں کا صرف ایک ہلکا سا عکس  ہے ۔۔

یہ ایک فریب ہے۔ سائنس اور سیکھنے کا عمل انسانیت کی مرہون منت ہے

یہ اسلام سے پہلے کی تہذیبوں میں موجود تھا۔ قدیم بابل اور مصری سائنس تین ہزارسے چار ہزارسال پہلے شروع ہوئی تھی ۔ چینی ، ہندوستانی اور یونانی تہذیب بھی بہت ترقی یافتہ تھی ۔ تقابلی جائزہ لیا جائےتو واضح ہوتا ہے کہ  اسلام میں سائنس تاخیر سےآئی ۔حضرت محمد ﷺکے وصال کے ڈیڑھ سو سال بعد یونانی مواد کے تراجم سے  کئی راز کھلے ۔ اگرچہ مسلمانوں نے بہت سارے نئے اور روشن خیالات کو شامل کیا لیکن ان کی سائنس جدید سائنس کا صرف ایک حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: کس سے کریں فریاد: من میت کور کاکالم

آخر عرب دنیا میں امید کی علامتیں ابھر رہی ہیں۔ عرب دنیا نے یہ جان لیا ہے کہ الگ تھلگ رہ کر ترقی ممکن نہیں ۔متعددعرب ممالک جدید رجحانات کو اپنا رہے ہیں ۔عالمگیراقدارکوجذب کررہے ہیں۔۔شخصی آزادی کی آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ خاص کر خواتین کو آزادی دی جارہی ہے ۔۔ اگرچہ نیتن یاہو کے اسرائیل کو تسلیم کرنےکے معاملے پر سخت مزاحمت دیکھنے میں آرہی ہے ۔ فلسطینی مفادات کا سودا کرنے پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ تاہم سامی مخالف پراپیگنڈا تمام افراد کے لئے اچھی فال نکال رہا ہے ۔

عرب دنیا میں ترقی پسندی کے رجحانات آگے بڑھ رہے ہیں

پاکستان  اپنے ہی عشق میں مبتلا ہوکر” نرگسیت ” کو فروغ دے رہا ہے ۔ مسائل پر آنکھیں بند کر کے ترک اسلامی ماضی کی سازش اور افسانوی ڈرامہ  ارطغرل  کے ذریعہ سکون تلاش کیا جارہا ہے  ۔یہ سیریز  اب لاکھوں کی تعداد میں روزانہ دیکھی جارہی ہے ۔۔ یقینا  یہ فرار کی ایک نئی شکل ہے۔

پاکستانی دماغ کے مزید بند ہونے کے ثبوت  بھی واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے اسکول کے نصاب  سے  دنیا کی تاریخ ، فلسفہ ، علم الکلامیات یا دیگر  مذاہب کا مطالعہ  غائب ہو چکا ہے ۔ پی ٹی آئی کے  یکساں نصاب تعلیم  میں رٹا سسٹم کو فروغ دیا گیا ہے ۔ ۔  جیسا کہ مذہبی تعلیم میں ہوتا ہے  ۔  بچوں کے دماغوں  کو دنیا ئے علوم کے لئے تیار کیا جانا چاہیے نا کہ صرف اپنی ذات تک محدود رہنے کے لئے ۔۔۔