SUPER BLOG

اب غلط فہمی دور کرلیں

  اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے تووہ اپنی غلط فہمی دور کرلے۔ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے والوں کی نظریں پورے مشرق وسطیٰ پر ہیں اور اُن کے سرپرستوں نے سعودی عرب اور ایران سے لے کر پاکستان اور افغانستان تک کئی اہم مسلم ممالک کی سرحدیں تبدیل کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ 

عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے دیکھ لیا۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور 2021کے رمضان المبارک میں اسرائیل نے بیت المقدس سے لے کر غزہ تک اپنی طاقت کا جو بہیمانہ استعمال کیا اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بات کرنا دراصل اسرائیل کے ریاستی جرائم میں شریک ہونے کے مترادف ہوگا۔ 

اسرائیلی ریاست نے سیلف ڈیفنس کے نام پر غزہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے چیتھڑے اُڑا کر بہت سے یہودیوں کو بھی اسرائیل کی مذمت پر مجبور کردیا۔ لندن کی سڑکوں پر ہمیں بہت سے آرتھوڈاکس یہودی رہنما مسلمانوں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگاتے نظر آئے۔ اسرائیلی مظالم کی مذمت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسیحی اور یہودی بھی آگے آگے ہیں۔ اسرائیل کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صیہونی سوچ کے خلاف ہیں۔ 

وقت آگیا ہے کہ ہم صیہونیت اور یہودیت میں فرق کو سمجھیں اور اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے والے یہودیوں کے ساتھ مل کر دنیا پر صیہونی عزائم کو واضح کریں۔ اسرائیل دنیا کی وہ منفرد ریاست ہے جو 1948میں قائم کی گئی اور ابھی تک اس ریاست کی مستقل سرحدوں کا فیصلہ نہیں ہوا۔

اسرائیل نے 1967اور 1973کی عرب اسرائیل جنگوں کے دوران اپنی سرحدوں میں تبدیلی کی اور کچھ برسوں سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر اپنی جغرافیائی حدود میں اضافہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کی اس پالیسی پر بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے بھی عملدرآمد کیا اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 5اگست 2019کے بعد سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی آباد کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ بنایا لیکن فی الحال اس راستے کی بڑی رکاوٹ کورونا وائرس بنا ہوا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ماضی میں جو طاقتیں پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دبائو ڈالتی رہیں اب وہی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان مذاکرات کے نام پر بھارت کے سامنے کشمیر پر سرنڈر کردے تاکہ کل کو بھارت وادیٔ کشمیر میں وہی کچھ کرے جو اسرائیل آج کل غزہ میں کررہا ہے۔

پاکستان عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا تو پاکستان کا زیادہ دبدبہ تھا۔ ایٹمی طاقت بننے کے بعد سے پاکستانی ریاست اس خطے میں غیر ملکی طاقتوں کی سہولت کار بن کر رہ گئی ہے جس پر ہر وقت کہیں نہ کہیں سے ’’ڈو مور‘‘ کا دبائو رہتا ہے۔ 

اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے ابھی تک اسرائیل کے معاملے پر وہ لچک نہیں دکھائی جس کی توقع کچھ برادر اسلامی ممالک ان سے کر رہے تھے۔ عمران خان سے سو اختلاف کریں لیکن اسرائیل کے بارے میں ان کا موقف ناصرف پاکستانیوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت کی ترجمانی کرتا ہے۔ ابھی تک انہوں نے صرف اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ مذمت سے آگے وہ بھی نہیں بڑھ سکے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کا انجام وہ نہیں بھولے۔ 

آج کی وہ نوجوان نسل جو ہر الیکشن میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ سنتی ہے، اسے پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت یہ بتانے میں ناکام رہی ہے کہ جب 1973کے رمضان المبارک میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ایئر فورس کے پائلٹ شام اور اردن بھیجے اور ان پاکستانی ہوا بازوں نے کئی اسرائیلی طیارے تباہ کئے۔ اس جنگ میں شمالی کوریا نے بھی اپنے 20 پائلٹ مصر بھجوائے، سعودی عرب، کویت، مراکش، لبنان اور سوڈان نے اپنے فوجی اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئےبھیجے۔ امریکہ نے کھل کر اسرائیل کی مدد کی۔ 

عرب ممالک بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ ختم نہ کرا سکے لیکن عربوں نے پہلی دفعہ تیل کا ہتھیار استعمال کیا۔ اس جنگ کے کچھ عرصہ بعد فروری 1974میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں مصر کے صدر انور السادات اور لیبیا کے صدر معمر قذافی ایک ہی طیارے میں لاہور آئے۔ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کو امیر کویت اپنے طیارے میں لے کر آئے۔ 

شام کے سوشلسٹ صدر حافظ الاسد اور سعودی عرب کے شاہ فیصل نے ایک ساتھ بھٹو کے ہمراہ بادشاہی مسجد لاہور میں بیت المقدس کی آزادی کے لئے دعا مانگی۔ پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک مینار آج بھی اس عظیم کانفرنس کی یادگار کے طور پر موجود ہے لیکن اس کانفرنس کے بعد باری باری شاہ فیصل، بھٹو اور انور سادات سازشوں کا نشانہ بنتے گئے۔ اسرائیل نے مذاکرات کے نام پر عربوں کو تقسیم کیا اور آپس میں خوب لڑایا۔ جب پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا تو اسرائیلی جارحیت کو للکارنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ 

بھٹو کی پھانسی کے بعد ایسا کبھی نہ ہو سکا۔ پاکستان کو 1998میں ایٹمی طاقت بنانے والے وزیراعظم نواز شریف بھی آج جلا وطن ہیں۔ اسرائیل کی مذمت تو سب کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی جرأت سے ہماری قیادت محروم ہو چکی ہے۔ وہ لوگ جو ہمیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے مشورے دیتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ صیہونی سوچ کے پیچھے موجود گریٹر اسرائیل کے تصور کو سمجھیں۔ جس طرح ہندو انتہا پسند پورے جنوبی ایشیا کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں اسی طرح صیہونی انتہا پسند وادیٔ نیل سے دریائے فرات تک ایک گریٹر اسرائیل کا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں اردن، شام اور سعودی عرب کا بہت سا علاقہ بھی شامل ہے۔

صیہونی انتہا پسندوں کے ایک حامی اور امریکی فوج کے ریٹائرڈ افسر کرنل رالف پیٹرز بہت سال پہلے نئے مشرق وسطیٰ کا تصور پیش کر چکے ہیں اور ان کے نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے میں پاکستان کی سرحدوں کو بھی تبدیل کیا گیاہے۔ رالف پیٹرز کے نقشے کے مطابق ترکی، شام، ایران اور عراق کے کرد علاقوں پر مشتمل کردستان قائم کیا جائے گا، عراق کو شیعہ اور سنی ریاستوں میں تبدیل کر دیا جائے، سعودی عرب کے کچھ علاقے اردن اور یمن میں شامل کر دیے جائیں، متحدہ عرب امارات کے شیعہ اکثریتی علاقے عراقی شیعہ ریاست میں شامل کر دیں، افغانستان کے کچھ علاقے ایران کو دے دیں۔

ایران کے کچھ علاقے آذربائیجان کو دے دیں، پاکستان کے اندر آزاد بلوچستان کے نام سے نئی ریاست قائم کر دی جائے اور مشرق میں پختون علاقے افغانستان میں شامل کر دیں۔ بظاہر یہ ایک دیوانے کا خواب ہے اور اس پر عملدرآمد مشکل ہے لیکن گریٹر اسرائیل کا تصور صیہونی لٹریچر میں موجود ہے۔ اسرائیل کی طرف سے مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادی کا جبری انخلاء اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستیاں آباد کرنے کی کوشش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسرائیل کے بارے میں بانی پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح نے جو موقف 1948میں اختیار کیا تھا وہ موقف آج بھی درست ہے۔ اسرائیل اور بھارت کی انتہا پسند قیادت ناقابلِ اعتبار ہے۔ اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو اب اسے دور کر لے۔

Related Articles

Back to top button