سینیٹ میں کیا ہونے والا ہے ؟

چسکہ فروشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہمارے میڈیا نے مگر مقبولیت یا Ratings کی ہوس میں اسے مریضانہ علت کی طرح اپنالیا ہے۔ ہمارے رویے کی وجہ سے لوگ ہمیں بکائو یا عوامی مسائل سے لاتعلق تصور کریں تو ان سے شکوے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

اخبارات اور ٹی وی سکرینوں پر نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز دکھانے والے دھندے کو Mass Mediaکہا جاتا ہے۔ یہ نام واضح طورپر یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم صحافیوں کا بنیادی فریضہ اس “خبر” کو ڈھونڈنا اور اس کے مضمرات کو اجاگر کرنا ہے جو روزمرہّ زندگی کے حوالے سے عوام کی بے پناہ اکثریت کے لئے اہمیت کی حامل ہو۔

ہمارے پیشے کے اس پہلو کو دل سے تسلیم کرلیا جائے تو میری دانست میں “خبر” 15دسمبر2020کے روز ہوا ایک حکومتی فیصلہ تھا۔ اس کی بدولت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں تین روپے اضافے کا اعلان ہوا ہے۔

پیٹرول کی قیمت میں اضافہ بازار میں دستیاب اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی گرانی کا باعث ہوتا ہے اور مہنگائی ہمارے ہاں پہلے ہی ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے۔ یہ بات بھی تقریباََ عیاں ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں آئندہ برس مزید اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ کرونا کی مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین دریافت ہوچکی ہے۔ دُنیا کے کئی ممالک میں اس کا وسیع پیمانے پر استعمال بھی شروع ہوگیا۔

اس ویکسین کی بدولت آئندہ برس مارچ کے اختتام تک تمام عالم میں کاروباری رونق بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس کی بدولت پیٹرول کی طلب میں اضافہ بھی لازمی ہے۔ طلب اور رسد کی منطق بروئے کار آئے گی تو پاکستان جیسے ممالک کو عالمی منڈی سے پیٹرول مہنگے داموں میسر ہوگا۔ مہنگائی کی ایک نئی لہر گویا کافی شدت سے نمودار ہونے کی تیاری کررہی ہے۔

ہمیں “ہر لمحہ باخبر” رکھنے کے دعوے دار میڈیا نے مگر 15دسمبر کے روز ہوئے اس اعلان کو Underplayکیا۔”جاہل”عوام کی “ذہن سازی” پر اپنے تئیں مامور ہوئے اینکر خواتین وحضرات بلکہ اسے نظرانداز کرتے ہوئے بہت حیرانی سے عمران حکومت کے اس اعلان کو زیر بحث لاتے رہے جس کے ذریعے اس نے سینٹ کے جزوی انتخاب مارچ 2021کے بجائے آئندہ برس کے فروری ہی میں کروانے کا عندیہ دیا ہے۔

ہمارے ذہن سازوں کی اکثریت یہ تاثر پھیلاتی بھی محسوس ہوئی کہ عمران حکومت کے چند ذہین وفطین مشیروں نے گویا سینٹ کی آئندہ برس خالی ہونے والی نشستوں پر قبل از وقت انتخاب کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بہت ذہانت سے دریافت ہوئے مذکورہ فیصلے کی بدولت اپوزیشن جماعتیں ہکابکا رہ جائیں گی۔ PDMآئندہ برس کے آغاز میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے ذریعے جس انتخاب کو روکناچاہ رہی تھی وہ مظاہرین کے اس شہر آنے سے قبل ہی مکمل ہوجائے گا۔ عمران حکومت کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے 31جنوری 2021تک دی گئی مہلت مذکورہ بالا تناظر میں اپنی وقعت کھودے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کو اب اس تاریخ سے قبل ہی کوئی نئے کارڈ شو کرنا ہوں گے۔وقت کم اور مقابلہ سخت والے ماحول میں اپوزیشن جماعتیں مگرمتفقہ اور بارآور ثابت ہوئی حکمت عملی ڈھونڈ نہیں پائیں گی۔ شکست کے زخم چاٹتے ہوئے عمران حکومت کو 2023تک برداشت کرنے کو مجبور ہوجائیں گی۔ عمران حکومت کی “Master Stroke”کو بچگانہ معصومیت سے سراہتے ہوئے ذہن سازوں کو یاد ہی نہ رہا کہ ہمارا آئین تحریری صورت میں موجود ہے اور آئین کی کتاب میں آرٹیکل 224بھی شامل ہے۔

اس کے ذریعے صراحتاََ بتادیا گیا ہے کہ ایوانِ بالا میں بیٹھے افراد کی معیادِ رکنیت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل خالی ہونے والی نشستوں کے لئے نئے لوگ منتخب کئے جاسکتے ہیں۔ موجودہ سینٹ میں جو اراکین موجود ہیں ان میں سے آدھے لوگوں کی معیادِ رکنیت کو11مارچ 2021کے روز ختم ہونا ہے۔ ان کی جانب سے خالی ہوئی نشستوں کو لہٰذا9فروری2021کے بعد کسی روز بھی انتخاب کے ذریعے پُرکیا جاسکتا ہے۔ 11مارچ2021سے قبل ہوا انتخاب ہر حوالے سے آئینی ہوگا۔ اسے “انقلابی” یا “حیران کن” ٹھہرانا آئین سے عدم واقفیت کو عیاں کرتا ہے ۔

عمران  حکومت کے کسی نورتن کی ذہانت کا ہرگز اظہار نہیں۔ میرے کئی محترم اور عوام میں بے پناہ مقبول ساتھیوں کو مگر چسکہ فروشی کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر عمران حکومت کے چند مشیروں کی ذہانت وفطانت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے جس کی بدولت وہ حیران کن چالوں سے اپوزیشن جماعتوں میں موجود ذہین و قدآوررہ نمائوں کو بے اثر بنائے چلے جارہے ہیں۔ فارسی کے ایک محاورے کے مطابق ہر روز مگر روزعید نہیں ہوتا۔

سیاست میں بسااوقات بہت سوچ سمجھ کر چلائی چال بھی اُلٹا گلے پڑنے کے امکانات سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس امکان کی بابت بحث کی گنجائش ہی موجود نہیں کہ سینٹ کی جو نشستیں خالی ہونا ہیں انہیں پُرکرنے والا انتخاب 9فروری 2021کے بعد کسی بھی روز کروایا جاسکتا ہے۔ ممکنہ انتخاب کی تاریخ اور طریقہ کار کا تعین تاہم الیکشن کمیشن کا Exclusive یا حتمی اختیار ہے۔ حکومت اس ضمن میں فقط “استدعا” ہی کرسکتی ہے۔

حکومت کی جانب سے مگر “قبل از وقت” انتخاب دِکھتی “استدعا” ہوگی تو الیکشن کمیشن اپنی ساکھ کی خاطراس کی فوری تعمیل سے پہلے سوبارسوچے گا۔ اپوزیشن جماعتیں جولائی 2018سے الیکشن کمیشن کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔”Selected”والا بیانیہ تشکیل دینا ایسی تنقید کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ مذکورہ بیانیے کے اثر کو زائل کرنے کے لئے الیکشن کمیشن بسااوقات اپنی “آزادی اور خودمختاری” ثابت کرنے کو مجبور ہوجاتا ہے ۔

جھے خدشہ ہے کہ سینٹ کے “قبل از وقت” دِکھتے انتخاب کی بابت ہوئی حکومتی استدعا کے بارے میں بھی وہ اپنی خودمختاری دکھانے کو مجبور محسوس کرے گا۔”قبل از وقت” انتخاب کاماحول بنانے کے علاوہ عمران حکومت 11 مارچ 2021میں خالی ہونے والی نشستوں کو پُر کرنے کے لئے خفیہ رائے شماری کے بجائے Show of Handsوالا طریقہ کار بھی اختیار کرنا چاہ رہی ہے۔

یہ طریقہ اختیار کرنے کے لئے قانون سازی درکار ہے۔ اس تناظر میں پارلیمان سے رجوع کرنا لازمی ہے۔ معاملات کو Fast Trackپر نمٹانے کے لئے مگر وفاقی کابینہ میں تجویز یہ آئی ہے کہ پارلیمان کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ موجودہ سپریم کورٹ اگرچہ ازخود اختیارات کو قانون سازی کے لئے استعمال کرنے سے گریز کی عادی ہے۔ اسی باعث آرمی چیف کی معیادِ ملازمت میں اضافے جیسے حساس معاملے کو بھی پارلیمان کے ذریعے ہی طے کرنے کا حکم صادر ہوا تھا۔ PDMکے جلسوں میں عمران حکومت کی سہولت کاری کے الزامات کے تحت اعلیٰ عدلیہ کو بھی اب اشاروں کنایوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اس تناظر میں سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر “قبل از وقت” انتخاب جیسا ماحول بنانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا عدلیہ کو کانٹوں میں گھسیٹنے کے مترادف ہوگا۔ حتمی فیصلہ میری دانست میں بالآخر پارلیمان ہی کو کرنا ہوگا۔ عمران حکومت کے ذہین وفطین تصور ہوتے نورتن نجانے کیوں تصور نہیں کر پائے کہ موجودہ حالات میں سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کو Show of Handsکے ذریعے پُرکرنے کا فیصلہ درحقیقت اپوزیشن جماعتوں کے وسیع تر مفاد میں ہے

اس طریقہ کار کے مطابق انتخاب ہوا تو پیپلز پارٹی سندھ سے اپنی عددی طاقت کے تناسب کے ساتھ متوقع نشستوں سے کم از کم مزید دونشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے لئے بھی یہ پریشان کن گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کو زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لئے پنجاب اور سندھ میں گجرات کے چوہدریوں، ایم کیو ایم اور GDAکے نخرے بھی اٹھانا ہوں گے۔

بلوچستان میں “باپ “کے نام سے بنی جماعت بھی اپنے جثے سے زیادہ حصے کا تقاضہ کرے گی۔ اصل “کامیابی” تحریک انصاف کو فقط خیبرپختونخواہ میں میسر ہوگی۔ سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی نشستوں کو پُرکرنے کی بابت حکومت کے “نورتنوں “نے جو گیم لگائی ہے اس کے پلان پر من وعن عمل کو اگر سیاسی حرکیات وحقائق کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو یہ بالآخر تحریک انصاف کی مجبوریوں اور محدودات ہی کو عیاں کرے گا۔ ہمارے میڈیا پر چھائے “ذہن ساز” مگر ان کا تصور کرنے کو بھی تیار نہیں ہورہے۔ چسکہ فروشی پرڈٹے ہوئے ہیں