ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خطرناک کھیل

وقت اشاعت :18دسمبر2020
تحریر:ملک محمد زید یونس

 کوک اسٹوڈیو  کے تیرھویں اور  ویلو ساؤنڈ اسٹیشن  کے پہلے سیزن کے ساتھ پاکستان میں  موسم موسیقی شروع ہو چکا ہے۔

کوک سٹوڈیو راحت فتح علی خان، صنم ماروی، فریحہ پرویز اور بوہیمیا جیسے مشہور و معروف گلوکاران اور چند نسبتا نئے گلوکاروں کے ساتھ  2020 کے سیزن کی شروعات کر چکا ہے جبکہ عوام کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے نوزائیدہ ویلو ساؤنڈ اسٹیشن سجاد علی، عاطف اسلم، آئمہ بیگ و دیگر کے ساتھ میدان میں اتر چکا ہے۔

الیکٹرانک نسل اور خاص طور پر نوجوان طبقہ اس  مفت کی تفریح  سے بھرپور لطف اندوز ہو رہا ہے لیکن کیا یہ واقعی “مفت کی تفریح” ہے؟ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

بیسویں صدی کے آخر میں پیپسی پاکستانی کاربونیٹیڈ مشروبات کی مارکیٹ پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارکیٹ میں اس کا شئیر تقریبا 80 فیصد کے قریب تھا۔ پیپسی کے مارکیٹ میں پنجے گاڑنے کے پیچھے سب سے بنیادی وجہ کیا تھی؟

پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن اور پاکستان کی پسند؛ پاکستانی کرکٹ ٹیم۔ پیپسی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سب سے بڑا اسپانسر تھی(آپ نے اکثر پاکستانی ٹیم کی وردی کے سینے پر پیپسی کا سہ رنگی لوگو دیکھا ہوگا)۔ اس کے علاوہ پیپسی کے اشتہارات میں اس وقت کی پاکستانی کرکٹ کے بڑے نام جیسے کہ شاہد آفریدی، وسیم اکرم اور عمران خان وغیرہ جلوہ گر ہوتے تھے۔ اسے کہتے ہیں موقعے پہ چوکا۔

پیپسی سے چھ سال قبل یعنی 1953ء میں پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کروائی جانے والی کوکا کولا کمپنی کا شئیر اس وقت مارکیٹ میں تقریبا 20 فیصد کے قریب تھا اور یہ کمپنی بھی وطن عزیز میں اپنے پنجے گاڑھنے کے لیے کوشاں تھی، لیکن 2008 تک یہ ممکن نہ ہو سکا۔

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی وہ وقت تھا جب نجی الیکٹرونک میڈیا پاکستان میں اپنا تسلط قائم کر رہا تھا۔ کوکا کولا نے اپنی ناکام ہوتی تشہیری مہم دیکھ کر پاکستانی عوام کی دوسری پسندیدہ چیز یعنی موسیقی کو نشانہ بنایا اور اس مقصد کے لیے 2008 میں ‘کوک اسٹوڈیو’ لانچ کر دیا۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک کوک اسٹوڈیو نے پاکستان کے ہر مشہور گلوکار مثلاً عاطف اسلم، علی ظفر، راحت فتح علی خان، علی عظمت، سجاد علی و دیگر کو پلیٹ فارم مہیا کیا اور آہستہ آہستہ خود ساختہ ساؤنڈ آف دی نیشن بن گیا۔

سوال یہ ہے کہ  پاپ موسیقی  کا زیادہ رجحان شہروں میں ہوتا ہے تو دیہی علاقوں میں کوکاکولا نے خود کو کیسے مارکیٹ کیا؟ اس دور میں کوکا کولا کی مارکیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلرز نے کوک کی ایک بوتل سگریٹ کی ایک ڈبیا کے ساتھ مفت میں بانٹنا شروع کر دی۔ یوں عوام اس کی طرف متوجہ ہوئی اور کمپنی آہستہ آہستہ مارکیٹ میں چھا گئی۔ کوک سٹوڈیو کی شروعات اور دیگر اشتہارات کی بنا پر پر کوکا کولا کا شئیر پاکستانی مارکیٹ میں 20 فیصد سے بڑھ کر تقریبا 35 فیصد ہوگیا۔ اسے کہتے ہیں “ماسٹر اسٹروک”۔

 امنگوں پر مبنی  مارکیٹنگ کی بات ہو رہی ہو اور  سٹنگ  کا ذکر نہ ہو، کیسے ممکن ہے۔ آپ نے ٹیلی ویژن پر بارہا سٹنگ کا اشتہار دیکھا ہو گا جس میں پینے والا سٹنگ کا ایک گھونٹ پی کر عالم رنگ و بو کو پلٹ دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹوں کے اشتہار میں بھی پہاڑی سے نیچے اترنے والے کو سگریٹ پیتے دکھایا جاتا تھا جس کا مقصد دیکھنے والے کے ذہن میں یہ بات بٹھانا تھا کہ سگریٹ کا تعلق ہمت سے ہے، ویسے ہی جیسے ۔۔ڈیو نہ کیا تو پھر کیا جیا۔۔

دسمبر 2010 میں  ڈن ہل  سگریٹ بنانے والی اور پاکستانی سگریٹ مارکیٹ پر چھائی ہوئی کمپنی  برٹش امریکن تمباکو  کمپنی نے پاکستان میں  ویلو  نامی نکوٹین پراڈکٹ متعارف کروائی۔ یہ سفید رنگی نکوٹین پر مشتمل ایک چیونگم کے سائز کا  پاؤچ  ہوتا ہے اور ایک ڈبیا 20 ایسے ‘پاؤچ’ پر مشتمل ہوتی ہے۔

نکوٹین ایک ایسا نشہ آور کیمیکل ہے جو کسی بھی سگریٹ کے اہم اجزاء میں سے ایک ہے اور یہ ایسا مادہ ہے جو سگریٹ کی طلب پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک  پاؤچ  میں موجود نکوٹین کی مقدار ایک سگریٹ میں موجود نکوٹین کی مقدار کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ کمپنی نے شروعات ہی کراچی میں ایک بڑی پارٹی کے اہتمام سے کی جس میں  انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے کئی مشہور  ستاروں  کو مدعو کیا گیا اور اس کے بعد وہ باقاعدہ اشتہاروں میں بھی جلوہ گر ہوئے جن کا منشا  انرجی کے ڈوز  کے طور پر نیکوٹین لینا، تھکاوٹ دور کرنے کے لئے نکوٹین  زہر مار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

سب سے خطرناک بات یہ کہ کمپنی نے اپنی تشہیری مہم کے دوران پراڈکٹ کی مفت تقسیم بھی کی تھی ۔۔ویسی ہی مفت تقسیم جیسے کریم ٹیکسی کمپنی نے اپنے ابتدائی دنوں میں کی۔ اب آپ خود بتائیے کہ جسے ایک دفعہ اس کی لت لگ گئی وہ اس سے کیونکر فرار پائے گا؟ “راکھ پر سہاگہ” یہ کہ کمپنی نے مندرجہ بالا کمپنیوں کے ماڈل کو بروئے کار لاتے ہوئے اور پاکستانی عوام کی پسند کو  ہائی جیک  کرتے ہوئے نومبر 2020 میں کوک سٹوڈیو کی طرز پر انور مقصود کے بیٹے بلال مقصود کی سربراہی میں ویلو ساؤنڈ اسٹیشن لانچ کر دیا جس کی شروعات نوجوانوں کے  دلوں کی دھڑکن  عاطف اسلم اور آئمہ بیگ نے کی۔ اب تک یوٹیوب پر ان کی ویڈیوز دو کروڑ سے زائد بار دیکھی جا چکی ہیں۔ آگر بات کی جائے اس زہریلی ڈبیا کی تو اس ڈبیا پر موجود “18 پلس” کی وارننگ کی لمبائی 18 سنٹی میٹر سے سے بھی کم نظر آتی ہے۔

یاد رہے کہ اگر اسی طرز کی مصنوعات مہذب ممالک میں بنائی جائیں تو ان کے پیکٹ کے تقریبا آدھے حصے پر وارننگ موجود ہوتی ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ چونکہ پاکستانی حکومت نے فروری 2020 میں تمباکو کی تشہیر پر پابندی لگا دی تھی, شاید اسی لیے کمپنی نے دسمبر 2019 میں ہی  ویلو  لانچ کرکے کے اس پابندی کا  توڑ  نکال لیا تھا۔ تشہیر ہو تو ایسی اور سسٹم ہو تو ایسا۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ملک ہے جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بڑی مارکیٹ ہے۔

پاکستانی حکمرانوں کے پاس یا تو وقت نہیں ہے یا شاید اس قدر طاقت نہیں ہے کہ وہ اس ویلو نامی زہر کو لگام ڈال سکیں۔ اس کے علاوہ ایک سال گزر جانے کے باوجود ریاست کے چوتھے ستون کے  سریوں ۔۔خاص طور پر وہ جو نام نہادحقوق انساں  میں پیش پیش رہتے ہیں، سے بھی اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ وہ آپ کو یہ تو بتاتے نظر ضرور آئیں گے کہ ایک ڈبیا کی قیمت کیا ہے اور اس نشے کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے کثیر الوقتی نقصانات پر بات کرتے ہوئے ان کی حالت بقول جون ایلیا “آبلے پڑ گئے زبان میں کیا” والی ہو جائے گی۔ اگر ان کو لگام نہ ڈالی گئی تو مستقبل میں ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں دوڑتا “سفید خون”  ان سفید خون والے سرمایہ داروں، چپ سادھے حکمرانوں اور پیسے کی خاطر اپنا دین ایمان بیچ کر تشہیر کرنے والوں کے ہاتھوں پر ہوگا۔