موت کے وقت انسان کیا دیکھ رہا ہوتا ہے ؟

ندیم چشتی ، اسلام آباد

انسان جب مر رہا ہوتا ہے تو وہ کیا دیکھتا ہے ؟ہے ناں ملین ڈالر کا سوال!لیکن اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے اربوں انسان تاحال ناکام رہےہیں ۔ عصر حاضر کے سائنسدانوں اور فلاسفروں نے اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے خود پر گویاموت طاری کر کے بھی دیکھ لی مگر جتنے منہ اتنی باتیں ۔
قدیم انسان کا موت کے بارے میں کیا عقیدہ تھا اس کا تو کسی کو معلوم نہیں لیکن انسان موت کے بعد کی حالت کو مذہب سے ضرور جوڑتا ہے ۔موت کی حالت کیا ہے اس کا کھوج لگانے کے لئے ہمیں دستیاب معلومات کے مطابق صرف تین سے چار ہزار سال قبل مسیح جانے کی ہی اجازت ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی تہذیب سے” موت کی حالت” کا سراغ نہیں مل رہا ۔
“بک آف ڈیڈ”یعنی موت کا کتابچہ اہرام مصر کی دیواروں ، فرعونوں اور ان کے اہل خانہ کے تابوتوں پر کندہ عبارات کا مجموعہ ہے جنہیں ماہرین نے کسی حد تک سمجھ لیا ہے ۔حنوط شدہ لاشوں کے ساتھ سونے کے برتن ، چاقو اور بعض اوقات

جانور کے پتلے بھی برآمد ہو ئے ہیں ۔

بک آف ڈیڈ کے تناظر میں یہ مفہوم سمجھ آتا ہے کہ مصر کی قدیم تہذیب کے فرعون اور ان کے اہل خانہ مرنے کے فورا بعد ہی ایک نئی زندگی کے قائل تھے اور سمجھتے تھے کہ حالت موت میں شیطانی طاقتیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں اور جانور کے پتلے اور چاقو وغیرہ روح کے کام آتے ہیں ۔
چلیں اب قدیم چین کے دورے پر چلتے ہیں جہاں مرتے وقت یہ عقیدہ تھا بادشاہ صاحبان اور بااثر شخصیات کو تکلیف سے بچانا ضروری ہے ۔

لگ بھگ 200سال قبل مسیح چین کے مشہور بادشاہ قن شی ہینگ نے عقیدے کے مطابق اپنی موت سے قبل ایک عظیم الشان فوج تیار کی ۔

یہ فوجی حقیقی نہیں بلکہ تراشے ہوئے بت تھے ۔ مقصد صرف اتنا کہ بادشاہ جب مر رہا ہوگا تو اس کی روح شیطانی طاقتوں سے لڑنے کے لئے تیار رہے اور یہ پتھر کے بت زندہ ہو کر مقابلہ کریں گے ۔
اس پتھراسکواڈ میں آرمی چیف بھی تھا، بریگیڈئیر لیول کے افسر بھی اور پیادہ فورس بھی ۔
“ٹریکوٹا “فوج کی دریافت 29 March 1974 کو ہوئی جب کسان کھدائی میں مصروف تھے اس دوران اچانک زمین میں خلا دریافت ہوا اور جب قطار میں کھڑے بت نظر آئے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
قدیم یونان میں موت کے بارے میں فلاسفی بھی کچھ ایسی ہی ہے اور اگر لاطینی ملک پیرو کی بات کریں تو وہاں بھی شیطانی قوتیں ہی موت کے وقت منڈلاتی دکھائی دیتی ہیں ۔

اسی طرح ایمزون کے قدیم قبائل سے ملنے والے شواہد بتاتے ہیں موت ایک آرٹ ہے ۔ موت کی حالت کا جائزہ لینے کے لئے مذہب کےدائرے میں آنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر مذہب مرنے کے بعد ایک نئی زندگی یا نئی دنیا میں جانے کا قائل ہے ۔

اسلام مرنے کے بعدیقینی طور پر غیر معین وقت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی بات کرتا ہے اور اگر عین موت کے وقت کی بات کی جائے توجان نکالنے کے لئے فرشتہ مامور ہے جو روح کو ناک کے ذریعے نکالتا ہے ۔

مسیحی مذہب میں بھی روح کے آسمان پر پرواز کرنے کا اشارہ ہے لیکن یہ روح نکلتی کس طرح ہے اس پر رائے تقسیم ہے ۔

ہندوم دھرم میں موت کا فلسفہ انتہائی گہرا ہے اور منتشر خیالات کے کوزے میں بند ہے ۔

قدیم بدھ مت میں موت کی کیفیت کاتو واضح اشارہ نہیں مگر عصر حاضر میں مسلسل مذہبی تحریفات کے بعد رائے پر بھی گویا موت طاری ہے ۔
عصر حاضر کا احاطہ کرتے ہوئے موت کی کیفیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سائنسدان اور نیورالوجی کے ماہرین موت کی کیفیت کو دماغ کے خلیوں کی رو سے

قابل مشاہدہ لانے کی کوشش کرتےہیں ۔انتہائی آسان الفاظ میں اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی گہرا صدمہ یا چوٹ جسم میں غیر متوقع تبدیلی کو جنم دیتی ہے جو دماغ کے خاص خلیوں کو تباہ کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کا عمل شروع کر دیتی ہے ۔۔۔ جس کے بعد Necrosisیعنی موت کا باقاعدہ عمل شروع ہوتا ہے۔۔ لیکن یہ کیفیت صرف وہی جان سکتا ہے جو اس عمل سے گزر رہا ہے ۔

طبی ماہرین کئی ایسے مریضوں پر بھی ان کے اہل خانہ کی اجازت کے بعد تجربات کر چکے ہیں اور حالت موت کے عین وقت کا بغور معائنہ کرتے ہوئے اس خاص کیفیت کو جاننے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن آخر میں ان تجربات کے نتائج مختلف ہیں یعنی اس خاص موت کی گھڑی کی کیفیت کو

بیان کرنا فی الحال ناممکن سا نظر آتا ہے
کئی مسلمان علما ئے کرام کے مطابق موت کے قریب شخص اس فرشتے کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے تاہم اس کاشاہد صرف مرنے والا شخص ہی ہوتاہے ۔۔

اس لئے حقیقت کیا ہے آٹھ ارب کے قریب افراد کو سمجھ نہیں آرہی ۔۔۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے موت ضروری ہے ۔