غلام مصطفیٰ ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام۔جہاں قدرت نے اس کرہ ارض میں بے شمار جراثیم پیدا کیے ہوئے ہیں۔وہیں انسانی جسم میں ان جراثیم سے نمٹنے کیلیے ایک نظام بھی بنایا ہوا ہے جسے مدافعتی نظام کہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا نظام ہے جو امراض کے خلاف جاندار کے جسم میں مدافعت یا مرض سے لڑنے کیلیے قوت پیدا کرتا ہے یہ نظام کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ جب جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو محض ان کی موجودگی کی وجہ سے انسان کے جسم میں چند خاص قسم کے خلیے بننے شروع ہو جاتے ہیں پھر ان خلیوں سے خاص قسم کی رطوبتیں خارج ہوتی ہے ۔وہ رطوبتیں انسان کے دوست ہیں اور جراثیم کو تباہ کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں ان رطوبتوں کو "اینٹی بوڈز” جبکہ جرثیم کو اینٹی جنز کہتے ہیں ۔
اینٹی بوڈز کیمائی طور پر اینٹی جنز سے منسلک ہوکر اینٹی جنز کو نا کارہ بنا کر تباہ کردیتی ہیں اس طرح انسان صحت یاب ہو جاتا ہے چونکہ ہر ایک اینٹی بوڈی ایک مخصوص اینٹی جن کی موجودگی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔اس لیے یہ صرف اُسی اینٹی جن کو تباہ کرسکتی ہے ،کسی اور قسم کے اینٹی جن کو تباہ نہیں کر سکتی ہے ۔کبھی کبھار ایسا ہو ہو جاتا ہے کہ کسی اینٹی جن (جراثیم )کی مقدار یک لخت اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہمارا جسم اتنی تیزی سے اس کے مقابل اینٹی بوڈز کی کافی مقدار پیدا نہیں کر پاتا تب انسان بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے بیرونی امداد کی ضرورت ہوتی ہے ایسی بیماریوں کی چند مثالیں کالی کھانسی، زرد بخار ، پولیو ، ہیپاٹائٹس بی ، طاعون ،ملیر یا ،خسرہ اور نزلہ وغیرہ۔
ایسی بیماریوں کے خلاف موثر مدافعت پیدا کرنے کے لیے مصنوعی طریقے دریافت کیے جاتے ہیں۔اس مصنوعی طریقہ کو "ویکسینیشن ” اور اس سے بننے والی مادہ کو "ویکسین ” کہتے ہیں۔اس مصنوعی طریقے کا اصول کچھ اس طرح ہے کہ جراثیم سے متاثرہ شخص کے جسم سے کچھ جراثیم نکال لیا جاتا ہے اور ان جراثیم کو ناکارہ کیا جاتا ہے یا کسی خاص حصے کا ٹکڑا لیا جاتا ہے ان ٹکڑوں یا ناکارہ جراثیم کا محلول تیا ر کیا جاتا ہے ۔اسے "ویکسین ” کہتے ہیں اس ویکسین کی مناسب مقدار انسان کے خون یا جلد میں داخل کی جاتی ہے انسان پر ان ناکارہ جراثیم کا بہت ہی معمولی اثر ہوتا ہے ۔لیکن ہمارا جسم اس کے مقابل اینٹی بوڈز کی مناسب مقدار آسانی سے پیدا کر تا ہے ۔جو ہمارے جسم میں موجود تمام جراثیموں کے حملے پر قابو پا لیتا ہے ۔اور اس طرح ہم صحت یا ب ہو جاتے ہیں۔